مہتاب قدر

  1. کاشفی

    اک غزل تم بھی میرے نام کبھی لکّھو نا - مہتاب قدر

    غزل (مہتاب قدر) میری تعریف بھی جھوٹی ہی سہی لکّھو نا "اک غزل تم بھی میرے نام کبھی لکّھو نا " میکشی ایک بہانہ ہے فقط ملنے کا شوقِ دیدار پس تشنہ لبی لکّھو نا کھل کے لکّھو نا مری جورو جفا کے قصے اور کبھی اپنی بھی آشفتہ سری لکّھو نا اہل دنیا کی طرف دیکھ کے رکنا کیسا...
  2. کاشفی

    نظم: سرِشام - مہتاب قدر

    سرِ شام از: مہتاب قدر میں سرِ شام آئینہ بن کر اپنے دن کا حساب کرتا ہوں کبھی ہوتا ہوں مطمئن خود سے کبھی خود پر عتاب کرتا ہوں لمحہ لمحہ نچوڑ‌ کر اپنا میں سبق اکتساب کرتا ہوں سخت لمحوں کو طاقِ نسیاں میں میں سجا کر گلاب کرتا ہوں تیرہ و تار شب کے دامن میں فکر کو ماہتاب کرتا ہوں...
  3. سلیمان جاذب

    جوتے نامہ

    جوتے نامہ مہتاب قدر ہائے یہ کس گمان میں لکھا وہ بھی اردو زبان میں لکھا ہم کو کیا ہوگیا زمانے دیکھ ہم نےجوتوںکی شان میں لکھا جوتے پیروں کے بھی محافظ ہیں جوتے چہروں کے بھی محافظ ہیں جوتے جب تک نہ آئیں ہاتھوں میں جوتے بچوں کے بھی محافظ ہیں کتنے ذی احتشام کھاتے ہیں صدر عالی مقام کھاتے...
Top