غزل
مٹّی میں مِلا دے، کہ جُدا ہو نہیں سکتا
اب اِس سے زیادہ ،مَیں تِرا ہو نہیں سکتا
دہلیز پہ رکھ دی ہیں کسی شخص نے آنکھیں
روشن کبھی اِتنا تو دِیا ہو نہیں سکتا
بس تو مِری آواز میں آواز مِلا دے !
پھر دیکھ کہ اِس شہر میں کیا ہو نہیں سکتا
اے موت ! مجھے تُونے مُصِیبت سے نِکالا
صیّاد سمجھتا تھا...