سر زمیں پہ رکھتا ہوں،اٹھا لیتا ہوں،
نشان ماتھے پہ ،یونہی بنا لیتا ہوں۔
وہ کام ہوتا ہی نہیں ،جسے کہتے ہیں سجدہ،
مسجد آ جا کے،لوگوں کو دکھا لیتا ہوں۔
ام عبدالوھاب
تو مجھے جہاں نظر آتا ہے
جہان مجھے وہاں نظر آتا ہے
سیکھا ہے نارِ نمرود سے
آگ میں بھی گلستان نظر آتا ہے
بیچ سمندر تشنہ ہوں کھڑا
بھرا شہر بیاباں نظر آتا ہے
بڑی عجب آرزو تھی موسیٰ کی
دو آنکھوں سے وہ کہاں نظر آتا ہے
احباب سے التماس ہے اس پہ اپنا اپنا تبصرہ فرمائیں
غزل
تم نہیں سمجھے مرا غم آج بھی
رو رہے ہیں دیکھ لے ہم آج بھی
پاس میرے آکے اوجھل ہو گئے
ٹوٹتا ہے یہ مرا دم آج بھی
ہے پرانا درد بھی جو کیسے مٹے
ہو نہیں پایا ہے یہ کم آج بھی
جو ستم کرتے رہے ہنس کر سہا
سلسلہ جاتا نہیں تھام آج بھی
تم...
(١) مشاطہ را بگو کہ بر اسباب حسن یار
چیزے فزوں کند کہ تماشا بما رسید
(٢) چوں بشنوی سخن اہل دل مگو کہ خطا است
سخن شناس نئی دلبرا خطا ایں جا است
(٣) بوریہ باف گرچہ بافند است
نہ برندش بکار گاہ حریر
براے مہربانی ان اشعار کا سلیس اردو ترجمہ فرمادیں۔
اللہ آپ کو جزاے خیر عطا فرمائے۔