غزل
از: محمد ممتاز راشدؔ
سفر کے مرحلے، اب دردِ سر بنے ہوئے ہیں
یہ کیسے لوگ مرے ہم سفر بنے ہوئے ہیں
ذرا سی آنچ ہیں، برق و شرر بنے ہوئے ہیں
وہ ایک خوف کے مارے نڈر بنے ہوئے ہیں
بساط کچھ نہیں، باتیں پیمبروں جیسی
بجھے چراغ بھی شمس و قمر بنے ہوئے ہیں
نہیں جمال میں ان کے کوئی بھی رنگِ جمال
وہ اپنے...