غزل
نگاہوں میں تیر سانپ جو آستین میں رکھتے ہیں
صورت واللہ وہ کتنی حسین رکھتے ہیں
گفتار دلکش میں نہیں ثانی کوئی اُن کا
زہر زبان میں کتنا میرے ہم نشین رکھتے ہیں
ہوتا نہ کیونکر گھائل آخر دل ہی تو ہے
مستی آنکھوں میں مسکان لبوں پہ دلنشین رکھتے ہیں
ہم ہار گے سب کچھ وارفتگیِ محبت میں
شعلہ عجب...
رات کا اندھیرا ہو
دور ہی سویرا ہو
اک حسین وادی میں
چاند کا بسیرا ہو
جھیل کے کنارے پر
آ شیانہ میرا ہو
تتلیوں کا جھرمٹ ہو
بادلوں کا گھیرا ہو
اور میرے کندھے پر
سر وہ ہو جو تیرا ہو
تیرے اجلے چہرے کو
گیسوں نے گھیرا ہو
صرف میری آنکھیں ہوں
اور تیرا چہرہ ہو
جلترنگ ہو کنگن کی
رنگ حیا جو گہرا ہو
بات ہو...