رمل مثمن محذوف
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
کر گیا صد پارہ جو پل میں دلِ نخچیر ہے
صید گاہِ عشق سے بھٹکا کسی کا تیر ہے
ہو گیا پیوست پیکاں تیرِ حسنِ یار کا
یہ مرا ہے خواب یا آئینہِ تعبیر ہے
قابلِ تحسین کب تھی داستاں مے خوار کی
کچھ تو ساقی کا کرم، کچھ شوخیِ تحریر ہے
بعد مدت کے ہے چھیڑا نغمہِ...
فاعلاتن مفاعلن فعلن
گر میں ان سے ملا نہیں ہوتا
عشق کا سانحہ نہیں ہوتا
حادثے تو بہت ہوئے لیکن
جانے کیوں تو مرا نہیں ہوتا
بد گماں مجھ سے کر گیا کوئی
ورنہ وہ تو خفا نہیں ہوتا
سوز ہم کو ملے مگر دائم
گاہے گاہے بُکا نہیں ہوتا
چاہتیں ہیں کہ جو بدلتی ہیں
عشق تو بارہا نہیں ہوتا
ان کے دربار کا جو...
محترم الف عین صاحب،محترم محمد یعقوب آسی صاحب، و دیگر اساتذہ سے اصلاح کا متمنی ہوں
غزل
بے وفائی جو کی نہیں ہوتی
جیت ہرگز تری نہیں ہوتی
دل اگر ہوتا میرے قابو میں
چاہتِ مے کشی نہیں ہوتی
یوں تو روشن ہے زندگی کا چراغ
ہاں مگر روشنی نہیں ہوتی
راہِ الفت ہے یہ یہاں صاحب
عقل کی پیروی نہیں ہوتی...
وہ اپنی ہتک آپ بلانے کو چلے تھے
جو نام و نشاں میرا مٹانے کو چلے تھے
سچ کہیے تو آنکھوں میں بھی آنسو نہ بچے تھے
اور تشنگی صحرا کی بجھانے کو چلے
افسوس کہ وہ خود بھی تھے گمراہِ زمانہ
جو راستہ بتلانے زمانے کو چلے تھے
جن سے نہ ہوئی گل کی گلستاں میں حفاظت
گلزار وہ صحرا میں کھلانے کو چلے تھے
کچھ...
محمد یعقوب آسی کی کتاب "لفظ کھو جائیں گے" میں سے انتخاب
..........
بات کرنا ہو ناگوار جنہیں
ان سے کس مدعا کی بات کریں
میرے بیمار دل کو رہنے دیں
آپ اپنی انا کی بات کریں
۔۔۔۔۔۔۔
نام کوئی بھی مجھے دینے سے پہلے سوچ لیں
آپ کی پہچان بھی اس نام سے مشروط ہے
کیجئے اظہارِ بیزاری بھی مجھ سے اس قدر
آپ کا...
مری ایک اور تازہ غزل اصلاح کے لئے حاضر ہے
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف لی ہے یعنی وزن ہے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
اساتذہ سے اصلاح، رہنمائی اور ضعف بیان کی نشاندہی کی درخواست ہے ...
--------------------------------
ساتھی بھلے نہ کوئ ہو, یکتائی ہے بہت
رونے کو اپنے حال پہ تنہائی ہے بہت
چپ...
سنو میں خاک ہوتا جا رہا ہوں
حدِ افلاک ہوتا جا رہا ہوں
شرارت اسکی آنکھوں میں ہے ایسی
کہ میں چالاک ہوتا جا رہا ہوں
وظیفے میں اسے پڑھتا ہوں ہر شب
قسم سے پاک ہوتا جا رہا ہوں
گزرتی جا رہی ہے سانس اور میں
پسِ ادراک ہوتا جا رہا ہوں
عجب اک خوف ہے مجھ کو یہ آسی
بہت بے باک ہوتا جا رہا ہوں
محمد ارتضٰی آسی
وہ اپنے پاس بلائے تو کوئی بات بنے
اگر وہ بات بنائے تو کوئی بات بنے
وہ اپنی تیغ صفت آبدار نظروں سے
بلا کا وار چلائے تو کوئی بات بنے
ہمارا کیا ہے ابھی چُٹکیوں میں بک جائیں
مگر وہ دام لگائے تو کوئی بات بنے
اسی کی صوت میں کوئل کے سُر بکھرتے ہیں
وہ آج گیت سنائے تو کوئی بات بنے
یہ عاشقی کا تقاضہ...
شمع ہر موڑ پہ جلتی ہے جو میخانوں کی
فوج تم کو یہاں مل جائے گی پروانوں کی
لوگ کہتے ہیں محبت کا جزیرہ جس کو
وہ تو بستی ہے بھٹکتے ہوئے مستانوں کی
کوچہِ یار میں بستے ہیں فقط حسن پرست
آؤ پھر سیر کریں اسکے صنم خانوں کی
جب کبھی ہم نے محبت کے فضائل لکھے
تو یہ عنوان رہا "منزلیں بیگانوں کی"
تم کو آسی...
شہر میں ایک مشاعرہ ہے مصرعہ طرح حمایت علی شاعر کا ہے
’’نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ‘‘
ہم سے کیوں پہلو بدل جاتے ہیں لوگ
چھوڑ کر محفل نکل جاتے ہیں لوگ
یاں گِلہ کوئی رقیبوں سے نہیں
حلقہء یاراں سے جل جاتے ہیں لوگ
ساقیا آؤ کبھی شہرِ سُخن
دیکھنا کیسے مچل جاتے ہیں لوگ
اُس بُتِ کافر کا جلوہء...
رُبابِ دِل کے نغمہ ہائے بوالعجب چلے گئے
جو آگئے تھے شہر میں ، وہ بے ادب چلے گئے
میں اپنی دھن میں گائے جارہا تھا نغمہ ھائے جاں
مجھے نہیں خبر کوئی کہ لوگ کب چلے گئے
سیاہ رات رہ گئی ہے روشنی کے شہر میں
دِکھاکے چاند تارے اپنی تاب وتب چلے گئے
زباں کوئی نہ مِل سکی ظہورِ اضطراب کو
تمام لفظ چھوڑ کر...
ایک اور غزل کے ساتھ حاضر ہوں خاکسار آپ کے قیمتی مشوروں کا منتظرہے
دلِ نادان تیری بےکلی دیکھی نہیں جاتی
اب اس حالت میں کوئی بھی خوشی دیکھی نہیں جاتی
کہاں گم ہوگیا آنچل حیاکاان سروں سے آج
ہمیں ملت کی یہ بےپردگی دیکھی نہیں جاتی
مجھےڈرہےنظرلگ جائے نہ ظالم زمانےکی
زمانےسےہماری عاشقی دیکھی...