※ غزل برائے اصلاح ※
وہ اگر میرا ہم سفر ہوتا
میرا خالی مکاں بھی گھر ہوتا
خون روئیں نہ گر مری آنکھیں
نخل دل میرا بے ثمر ہوتا
ہاتھ تھامے۔ مرا وہ کب چلتا
میرے کل سے جو با خبر ہوتا
دوست ہوتے نہ اشک آنکھوں کے
رائیگاں زیست کا سفر ہوتا
جان لیتا...
ہے سکوت رو رہا کوچہ ویران بھی
منظر علیل تھے کہ دہلیز سو گئ
اک ﮈھیر سا رہا کونے میں راکھ کا..
با پردہ سا دھواں رہا اورسرمئ سی روشنی
ہے بدن پہ راکھ بھی , کچھ رخ پہ جمی ہوئ
کچھ بل سے رہ گئے , ہےرسی کوئ جلی
آنگن قلیل تھا , یوں دل میں درد کا
نہ ختم وہ ہوا , نہ میں کبھی ہوئ
تیرگی کو جلا بخشی...