خواہشوں کے سراب سے نکلے
زندگی اک عذاب سے نکلے
دل کی اب تیرگی مٹانے کو
کوئی صورت حجاب سے نکلے
رقص میں مے کدہ رہے شب بھر
ایسی مستی شراب سے نکلے
اب سرِ شام چاندنی غم کی
درد اوڑھے شباب سے نکلے
زندگی کا لباس اترا تو
یوں لگا جیسے خواب سے نکلے...
اصلاح کی درخواست ہے۔
پہلی، ہی وہ کہتا تھا دائمی محبت ہے
اِن دنوں اُسے مجھ سے دوسری محبت ہے
ماں کے بعد تُو میری دوسری محبت تھی
اب تو پہلے بیٹی ہے، پھرتری محبت ہے
نفرتوں کے پیڑوں سے چَھن کے یہ گزرتی ہے
جہل کے اندھیروں میں چاندنی محبت ہے
گُھٹ رہا ہے دم اب تو شہر میں محبت کا
رُت یہاں بھی گاؤں...
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے.
کچھ خوشیاں لازوال ہوتی ہیں. انمول اور قیمتی جن کا کوئی مول نہیں ہوتا. خوشی کا دل سے بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے. اسکی کونپلیں سے پھوٹ نکلتی ہیں اور پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں.
ایسی ہی خوشی اس کی آمد بھی تھی عجیب اور بے تحاشا. بے یقینی جیسا یقین...
ابتدائی جماعت کے بچوں کو سمتوں کے نام (مشرق، مغرب، شمال، جنوب) سکھانے کے لیے ایک چھوٹی سی پیاری نظم درکارہے۔
اگر پہلے کسی نے کہی ہو تو نشاندہی فرمائیں۔ یا کوئی اُستاد شاعر بچوں پر نوازش فرمائیں۔ بڑا کرم ہوگا۔