غزل
محشرؔ بدایونی
گر ضربِ مخالفت نہ ہوگی
زندہ کبھی شخصیّت نہ ہوگی
بے راہ رَوی کی راہ چلیے
کوئی بھی مزاحمت نہ ہوگی
کی نقلِ رسُوم بھی تو ہم سے
بس نقلِ منافقت نہ ہوگی
بے سوچے ندائے حق نہیں دی
واقف تھے، کہ خیریت نہ ہوگی
اب چاہے یہ دِن بھی رات بن جائیں!
ظُلمت سے مصالحت نہ ہوگی
جو شہر کی زَمِیں...
غزل
چمن دہل گیا موسم پہ کچھ اثر بھی نہ تھا
کٹے وہ شاخ سے، جن کو شعورِ پر بھی نہ تھا
نمودِ ضُو کو ہی، گر زندگی کہا جائے !
تو بے چراغ تو بستی میں ایک گھر بھی نہ تھا
یہ قافلے تو یہیں منسلک ہُوئے ہم سے
چلے تھے موج میں، تو ایک ہمسفر بھی نہ تھا
سوادِ شہر سے ہم دشت میں بھی ہو آئے
سلامتی کا...
غزل
ہمارے ہاتھ تھے سُورج نئے جہانوں کے
سو اب زمِینوں کے ہم ہیں، نہ آسمانوں کے
ہزار گِرد لگا لیں قد آور آئینے
حَسب نَسب بھی تو ہوتے ہیں خاندانوں کے
حرُوف بِیں تو سبھی ہیں، مگر کِسے یہ شعوُر
کِتاب پڑھتی ہے چہرے، کِتاب خوانوں کے
یہ کیا ضرُور کہ ناموں کے ہم مِزاج ہوں لوگ
بہار اور خِزاں نام...
غزل
نشہ ہے، جہل ہے، شر ہے، اِجارہ داری ہے
ہماری جنگ، کئی مورچوں پہ جاری ہے
سَمیٹ رکّھا ہے جس نے تعیش دُنیا کے
سُکونِ دِل کا تو ، وہ شخص بھی بِھکاری ہے
یہ پُوچھنے کا تو حق ہے سب اہلِ خِدمت کو!
ہمارے دُکھ ہیں، خوشی کیوں نہیں ہماری ہے
اُس اِنتظار کا اب موت تو نہیں ہے جواز
جس اِنتظار میں، اِک...
غزل
تابِ لب حوصلہ وَروں سے گئی
خُوئے پُرسِش بھی، خود سروں سے گئی
کب سے لو تھی شُعاع ِ مہر اُترے
آخر اِک جُوئے خُوں سروں سے گئی
بنی ایذا ہی چارۂ ایذا
زخم کی آگ نشتروں سے گئی
شرمِ مِنقار، تشنگی کیا تھی
تشنگی وہ تھی جو پروں سے گئی
چھاؤں کیا دی نئی فصیلوں نے!
آشنا دُھوپ بھی گھروں سے گئی...
غزل
جُھوٹے اِقرار سے اِنکار اچھّا
تم سے تو مَیں ہی گُنہگار اچھّا
حبس چَھٹ جائے، دِیا جلتا رَہے!
گھر بس اِتنا ہی ہَوا دار اچھّا
عجز خواری ہے ، نہ ظاہر داری
عجز کو چاہئے معیار اچھّا
یہ عمارت ہے اِسی واسطے خُوب
اِس عمارت کا تھا معمار اچھّا
اب بھی اِک خدمتِ شہ خصلت میں!
شام کو جمتا ہے...
غزلِ
محشؔر بدایونی
شاعری حسبِ حال کرتے رہے
کون سا ہم کمال کرتے رہے
کھائے اوروں نے پھل درختوں کے
ہم تو بس دیکھ بھال کرتے رہے
سارا دِن دُکھ سمیٹتے گُذرا
شب کو ، ردِّ ملال کرتے رہے
آدمی کیوں ہے بے خیال اِتنا ؟
خود سے ہم یہ سوال کرتے رہے
اور کیا پاسِ زخم کرتے لوگ
کوششِ اندمال کرتے رہے...
نوحہء حیات
(محشر لکھنوی)
مار ڈالا حسرتوں کے غم نے اے محشر ہمیں
چند دن میں ختم ہے اپنا بھی دورانِ حیات
گھٹ گیا زورِ جوانی ،ہوگئے عضا ضعیف
کون اب سر پر اُٹھائے بار احسانِ حیات
خیریت سے جیتے جیتے ہوگئے چالیس سال
اب کہاں وہ روز و شب کہئے جنہیں جانِ حیات
کان میں آخر صدائے الرحیل آنے...
محشر بدایونی کے منتخب اشعار
بنے وہ کیسے تماشہ، تہہِ فلک جو چراغ
بجھا دیئے گئے اور روشنی میں رکھے گئے
~~~~~~~~~
میں شعلگیِ ذات سے پہنچا ہوں یہاں تک
بُجھ جاؤں گا جل جل کے تو لو دے گا دھواں تک
~~~~~~~~~
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیئے میں جان ہوگی، وہ دیا رہ جائے گا...