بے سبب لوگ بدلتے نہیں مسکن اپنا
تم نے جلتے ہوئے دیکھا ہے نشیمن اپنا
کس کڑے وقت میں موسم نے گواہی مانگی
جب گریبان ہی اپنا ہے نہ دامن اپنا
اپنے لٹ جانے کا الزام کسی کو کیا دوں
میں ہی تھا راہنما میں ہی تھا رہزن اپنا
کوئی ملتا ہے جو اس دور پر آشوب میں دوست
مشورے دے کے بنا لیتے ہیں دشمن...
غزل
عظمتِ فن کے پرستار ہیں ہم
یہ خطا ہے، تو خطا وار ہیں ہم
جہد کی دُھوپ ہے ایمان اپنا
منکرِ سایۂ دِیوار ہیں ہم
جانتے ہیں ترے غم کی قیمت
مانتے ہیں، کہ گنہگار ہیں ہم
اُس کو چاہا تھا کبھی خود کی طرح !
آج خود اپنے طلبگار ہیں ہم
اہلِ دُنیا سے شکایت نہ رہی
وہ بھی کہتے ہیں زیاں کار ہیں ہم...
غزل
(محسن بھوپالی)
اپنا آپ تماشا کر کے دیکھوں گا
خود کو خود سے منہا کر کے دیکھوں گا
وہ شعلہ ہے یا چشمہ کچھ بھید کھلے
پتھر دل میں رستہ کر کے دیکھوں گا
کب بچھڑا تھا کون گھڑی کچھ یاد نہیں
لمحہ لمحہ یکجا کر کے دیکھوں گا
وعدہ کر کے لوگ بھلا کیوں دیتے ہیں
اب کے میں بھی ایسا کر کے دیکھوں گا
کتنا...
غزل
فنِ تشہیر سے کوئی بھی بیگانہ نہیں مِلتا
جرِیدوں میں مگر حرفِ حکیمانہ نہیں مِلتا
ہمارے عہْد سے تم کوہکن تک اِک نظر ڈالو
یہ کارِ عِشق ہے اِس میں محنتانہ نہیں مِلتا
یہ کیسا دشت، کیسی سرزمینِ بےروایت ہے
یہاں تو، زیرِدام آنے پہ بھی دانہ نہیں مِلتا
محبّت پیشگاں پر ابْتری کا دور آیا ہے
کہ ان...
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
میخانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
ہے خوئے ایازی ہی سزاوار ملامت
محمود کو کیوں طعنہ اکرام دیا جائے
ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے
بہتر ہے اس بزم سے اٹھ...
بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا
چاہے جانے کے سبھی عیب و ہنر رکھتا تھا
لا تعلق نظر آتا تھا بظاہر لیکن
بے نیازانہ ہر اک دل میں گزر رکھتا تھا
اس کی نفرت کا بھی معیار جدا تھا سب سے
وہ الگ اپنا اک اندازِ نظر رکھتا تھا
بے یقینی کی فضاؤں میں بھی تھا حوصلہ مند
شب نثرادوں سے بھی امید سحر...
غزل
(محسن بھوپالی)
اِدھر بھی سربکف میں ہوں، اُدھر بھی صف بہ صف میں ہوں
میں کس کا ساتھ دوں، اس جنگ میں دونوں طرف میں ہوں
اگر دشمن سے میرا معرکہ ہوتا تو امکاں تھا
مرا بچنا نہیں آساں کہ اب اپنا ہدف میں ہوں
غلط اندازے کر رکھے تھے میری خوش گمانی نے
نکل کر خود سے اب دیکھا تو تنہا ہر طرف میں ہوں...
چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری
میں نے دل کی بات رکھی اور تونے دنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبوری
ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو...
ورثہ
آخر کِس اُمید پہ اپنا سر نہوڑائے
بوڑھے پیڑ کے نیچے بیٹھے
بیتے لمحے گنِتے رہو گے
بوجھل سر سے ماضی کے احسان جھٹک کر اُٹھو
دیکھو یہ سب کوڑھ کی ماری شاخیں
گل کر گِرنے والی ہیں
اُس موٹے ، بےڈول تنے کے غار میں جھانکو
ویرانی اپنے بال بکھیرے۔۔۔ خُشک زباں سے
اِک اِک جڑ کو چاٹ رہی ہے
آؤ کوڑھ کی...
لا یغیّٗرُ ما۔ ۔ ۔
بُرائی سے نفرت ہی کرتا تھا پہلے
کہ اپنے بزرگوں سے میں نے یہی کچھ سُنا تھا
پھر اِک وقت آیا۔۔۔۔ کہ اورَوں کی خاطِر
بُری چیز کو بھی بُری چیز کہتے ہوئے
میں جِھجکنے لگا!
اب بُرائی کو اچھا سمجھنے لگا ہوں
یہی "اِرتقا" کی وہ دلدل ہے جس سے بچانا
کِسی کے بھی بس میں نہیں ہے
اگر مَیں...
ملے تھے خوف سے، بچھڑے ہیں اعتماد کے ساتھ
گزار دیں گے اِسی خوشگوار یاد کے ساتھ
یہ ذوق و شوق فقط لُطفِ داستاں تک ہے
سفر پہ کوئی نہ جائے گا سِندباد کے ساتھ
زمانہ جتنا بکھیرے، سنوَرتا جاؤں گا
ازل سے میرا تعلق ہے خاک و باد کے ساتھ
اُسے یہ ناز، بالآخر فریب کھا ہی گیا
مجھے یہ زعم کہ ڈُوبا ہوں...
بےخبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا
چاہے جانے کے سبھی عیب و ہُنر رکھتا تھا
لاتعلق نظر آتا تھا بظاہر لیکن
بےنیازانہ ہر اِک دل میں گزر رکھتا تھا
اُس کی نفرت کا بھی معیار جدا تھا سب سے
وہ الگ اپنا اِک اندازِ نظر رکھتا تھا
بےیقینی کی فضاؤں میں بھی تھا حوصلہ مند
شب پرستوں سے بھی اُمیدِ سحر...
یُونہی تو شاخ سے پتے گِرا نہیں کرتے
بچھڑ کے لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے
جو آنے والے ہیں موسم، اُنہیں شمار میں رکھ
جو دن گزر گئے، اُن کو گنا نہیں کرتے
نہ دیکھا جان کے اُس نے ، کوئی سبَب ہوگا
اِسی خیال سے ہم دل بُرا نہیں کرتے
وہ مل گیا ہے تو کیا قصۂ فِراق کہیں
خُوشی کے لمحوں کو...
سفاک تاثر
تم نے میرے لیے یہ کہا ہے
کہ میں صِفر ہوں
اگر تم مرے ساتھ ہو پھر بھی
مجھ میں اضافے کا اِمکاں نہیں
اور تمہیں خُود سے منہا اگر میں نے کر بھی دیا
تو کوئی فرق پڑتا نہیں !
یہ ریاضی کی منطق، یہ اندازے
بالکل بجَا ہیں مگر
اِس طرح بھی کبھی سوچنا
میری نفرت کی اِک ضرب
تم کو اگر صِفر کر دے ...
غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
وہ شخص لہجہ بڑا دل نشین رکھتا تھا
ہے تار تار مرے اعتماد کا دامن
کِسے بتاؤں کہ میں بھی اِمین رکھتا تھا
اُتر گیا ہے رگوں میں مری لہُو بن کر
وہ زہر ذائقہ انگبین رکھتا تھا
گُزرنے والے نہ یُوں سرسری گُزر دل سے
مکاں شِکستہ سہی، پر مکین رکھتا تھا
وہ عقلِ کُل...
نظر ملا کے ذرا دیکھ مت جھکا آنکھیں
بڑھا رہی ہیں نگاہوں کا حوصلہ آنکھیں
جو دل میں عکس ہے آنکھوں سے بھی وہ چھلکے گا
دل آئینہ ہے مگر دل کا آئینہ آنکھیں
وہ اک ستارا تھا جانے کہاں گرا ہو گا
خلا میں ڈھونڈ رہی ہیں نہ جانے کیا آنکھیں
قریب جاں دم خلوت مگر سرمحفل
ہیں اجنبی سے بھی بڑھ کر وہ آشنا آنکھیں...
زاویہ کوئی مقرر نہیں ہونے پاتا
دائمی ایک بھی منظر نہیں ہونے پاتا
عمر مصروف کوئی لمحہ فرصت ہو عطا
میں کبھی خود کو میسر نہیں ہونے پاتا
آئے دن آتش و آہن سے گزرتا ہے مگر
دل وہ کافر ہے کہ پتھر نہیں ہونے پاتا
کیا اسے جبر مشیت کی عنایت سمجھوں
جو عمل میرا مقدر نہیں ہونے پاتا
چشم پُر آب...
چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری
میں نے دل کی بات رکھی اور تونے دنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبوری
ذات کدے میں پہروں باتیں اور...