مُحسن نقوی

  1. طارق شاہ

    محسن نقوی ::::: سانسوں کے اِس ہُنر کو نہ آساں خیال کر ::::: Mohsin Naqvi

    غزلِ محسن نقوی سانسوں کے اِس ہُنر کو نہ آساں خیال کر زندە ہُوں، ساعتوں کو میں صدیوں میں ڈھال کر مالی نے آج کتنی دُعائیں وصُول کِیں کُچھ پُھول اِک فقیر کی جُھولی میں ڈال کر کل یومِ ہجر، زرد زمانوں کا یوم ہے شب بھر نہ جاگ، مُفت میں آنکھیں نہ لال کر اے گرد باد! لوٹ کے آنا ہے پھر مجھے...
  2. طارق شاہ

    محسن نقوی ::::: پَل بھر کو مِل کے اجرِ شِناسائی دے گیا ::::: Mohsin Naqvi

    غزلِ محسن نقوی پَل بھر کو مِل کے اجْرِ شِناسائی دے گیا اِک شخص، ایک عُمر کی تنہائی دے گیا آیا تھا شوقِ چارہ گری میں کوئی، مگر کُچھ اور دِل کے زخْم کو گہرائی دے گیا بِچھڑا، تو دوستی کے اثاثے بھی بَٹ گئے شُہرت وہ لے گیا، مجھے رُسوائی دے گیا کِس کی برہنگی تِری پوشاک بن گئی ؟ کِس کا لہُو...
  3. طارق شاہ

    محسن نقوی ::::: کیا خزانے مِری جاں ہجر کی شب یاد آئے ::::: Mohsin Naqvi

    غزلِ مُحسن نقوی کیا خزانے مِری جاں ہجر کی شب یاد آئے تیرا چہرہ، تِری آنکھیں، تِرے لب یاد آئے ایک تُو تھا جسے غُربت میں پُکارا دِل نے ورنہ، بِچھڑے ہُوئے احباب تو سب یاد آئے ہم نے ماضی کی سخاوت پہ جو پَل بھر سوچا دُکھ بھی کیا کیا ہمیں یاروں کے سبَب یاد آئے پُھول کِھلنے کا جو موسم مِرے دل...
  4. عؔلی خان

    محسن نقوی وہ جِس کا نام بھی لیا پہیلیوں کی اوٹ میں - (غزل)

    وہ جِس کا نام بھی لیا پہیلیوں کی اوٹ میں نظر پڑ ی تو چُھپ گئی سہہیلیوں کی اوٹ میں رُکے گی شرم سے کہاں یہ خال و خد کی روشنی ؟ چُھپے گا آفتاب کیا ہتھیلیوں کی اوٹ میں؟ تِرے مِرے مِلاپ پر وہ دشمنوں کی سازشیں وہ سانپ رینگتے ہوئے چنبیلیوں کی اوٹ میں وہ تیرے اشتیا ق کی ہزار حیلہ ساز یاں وہ...
  5. طارق شاہ

    محسن نقوی - جُنوں میں شوق کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا

    غزل مُحسن نقوی جُنوں میں شوق کی گہرائیوں سے ڈرتا رہا میں اپنی ذات کی سچّائیوں سے ڈرتا رہا محبّتوں سے شناسا ہُوا میں جس دن سے پھر اُس کے بعد شناسائیوں سے ڈرتا رہا وہ چاہتا تھا کہ تنہا مِلوں، تو بات کرے ! میں کیا کروں کہ میں تنہائیوں سے ڈرتا رہا میں ریگزار تھا، مجھ میں بسے تھے سنّاٹے...
  6. طارق شاہ

    محسن نقوی کل رات بزم میں جو مِلا، گلبدن سا تھا -- غزلِ مُحسن نقوی

    غزلِ مُحسن نقوی کل رات بزم میں جو مِلا، گلبدن سا تھا خوشبو سے اُس کے لفظ تھے، چہرہ چمن سا تھا دیکھا اُسے تو بول پڑے اُس کے خدّوخال پوچھا اُسے تو چپ سا رہا، کم سُخن سا تھا تنہائیوں کی رُت میں بھی لگتا تھا مُطمئن وہ شخص اپنی ذات میں اِک انجمن سا تھا سوچا اُسے، تو میں کئی رنگوں میں کھو گیا...
Top