سَرِ حُسنِ کلام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
کبھی شہر شہر میں عام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
کبھی خاک پر بھی لِکھیں تو مَوجِ ہَوا مِٹا کے اُلجھ پڑے
کبھی زینتِ دَر و بام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
بَھرے دن کی زرد تمازتوں میں بُجھے بُجھے سے رہے، مگر
رُخِ شب پہ ماہِ تمام تھا، تیرا...