سرپٹ دوڑتے ہوئے اُس نے ایک دفعہ پھر سے مُڑ کر دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو میرا قصور کیا ہے؟ اس کی ملتجیانہ نظریں بار بار سوال کر رہی تھیں، ایک دفعہ میرا قصور تو بتا دو؟ اس کا سانس پھولتا جا رہا تھا، ٹانگیں پسینے سے شرابور اور بھاری ہوتی جارہی تھیں قریب تھا وہ گر جاتا لیکن اپنی جانب بڑھتے ہوئے ہجوم...