غزل بشکریہ دل آویز صدیقی صاحب
کیا عجب دل کی لگی سوزِبیاں تک پہنچے
کون کہہ سکتا ہے یہ آگ کہاں تک پہنچے
توڑ کر سر حدِ ادراک کی ہر بندش کو
تیرے دیوانے خدا جانے کہاں تک پہنچے
گردِ راہِ سرِ منزل یہ بتادے لِلّلہ
ہم سے یارانِ عدم چھٹ کے کہاں تک پہنچے
پھروہی ترچھی نظر پھر وہی تیکھی چِتون
آپ پہنچے...