غزل
ناصر کرنولی
غموں کی زندگی باقی نہیں ہے
مگر دل میں خوشی باقی نہیں ہے
اُجالوں میں ہیں تابندہ اندھیرے
حقیقی روشنی باقی نہیں ہے
عفو و دَرگزر شیوہ ہے اپنا
کسی سے دشمنی باقی نہیں ہے
قرینِ مصلحت خود داریاں ہیں
اَنا کی سرکشی باقی نہیں ہے
کرے گا کون زخموں کا مداوا
کہیں چارہ...