ہیں اشک مری آنکھوں میں قلزم سے زیادہ
ہیں داغ مرے سینے میں انجم سے زیادہ
سو رمز کی کرتا ہے اشارے میں وہ باتیں
ہے لطف خموشی میں تکلم سے زیادہ
جز صبر دلا چارہ نہیں عشق بتاں میں
کرتے ہیں یہ ظلم اور تظلم سے زیادہ
مے خانے میں سو مرتبہ میں مر کے جیا ہوں
ہے قلقل مینا مجھے قم قم سے زیادہ
سو رقص سے...
ہے عجب رنگ کی وحشت ترے دیوانے میں
جی نہ آبادی میں لگتا ہے نہ ویرانے میں
ہوں وہ میکش کہ نہ مستی میں کہوں راز کبھی
لاکھ قُل قُل کہے شیشہ مجھے میخانے میں
آفتاب اس میں اگر آئے، توا بن جائے
نور کا دخل نہیں میرے سیہ خانے میں
حشر تک جی میں ہے بے ہوش رہوں میں ساقی
کاش مے بھر دے مری عمر کے پیمانے میں...
غالب اپنا تو عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
"آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں"
بچپن میں جب غالب کا یہ شعر پڑھا تو خیال آیا کہ شاید ناسخ بھی کوئی شاعر گزرا ہے۔ اس کے بعد سالہا سال تک ناسخؔ کا صرف ایک یہی مصرع پڑھا جو غالب نے اپنے شعر میں برتا۔
مجلس ترقی ادب لاہور کی مطبوعہ کلیاتِ ناسخ گھر میں پڑی تھی تو...
راہ ِحق میں ہُوئے لڑکر ،کبھی مر کر لاکھوں
زندہ جاوید ہر اِک دیس کے گھر گھر لاکھوں
ہو محبّت کے خزانے میں کہاں کُچھ بھی کمی!
چاہے دامن لئےجاتے رہیں بھر بھر لاکھوں
کوچۂ یار کومیلے کا سماں دیتے ہیں
اِک جَھلک دِید کی خواہش لئے دِن بھر لاکھوں
کردے مرکوُز جہاں بَھر کی نِگاہیں خود پر
چاند پِھر...
لکھوں پہلے حمدِ علیِ عظیم
علیمٌ حکیمٌ رحیمٌ کریم
بدیع السمٰوات و الارض ہے
عبادت اسی کی فقط فرض ہے
وہی واجب و خالقِ ممکنات
کہا اس نے کُن، ہو گئی کائنات
نہیں کوئی موجود اس کے سوا
نہیں کوئی معبود اس کے سوا
اسی سے وجود اور اسی سے عدم
اسی سے حدوث اور اسی سے قدم
اسی کے ہیں وارفتہ یہ ماہ و مہر
اسی...
تو نے مہجور کر دیا ہم کو
سخت رنجور کر دیا ہم کو
آپ چلتے ہیں غیر کو نہیں رنج
غم نے کافور کر دیا ہم کو
اپنی برقِ نگاہ سے تم نے
شجرِ طور کر دیا ہم کو
دل بنا عاشقی میں خود مختار
اور مجبور کر دیا ہم کو
ایسی تعریف کی، کہ اے زاہد!
عاشقِ حور کر دیا ہم کو
غم نہیں محتسب، جو توڑا خُم
نشہ نے چور کر دیا...
تُو وہ باطن ہے کہ جلباب ہیں تجھ پر لاکھوں
تُو وہ ظاہر ہے کہ بے تاب ہیں مظہر لاکھوں
ہُوں وہ کافر کہ زمانے کے صنم ہیں مرغوب
ہُوں وہ مجنوں کہ مجھے چاہئیں پتھر لاکھوں
نورِ عرفاں جو نہ ہو جہل کی ظلمت میں نہاں
ایک ہی تجھ کو نظر آئیں یہ مظہر لاکھوں
خاک سے سبزہ نکلتا ہے جو مانندِ زباں
ہو گئے زیرِ...
واعظا مسجد سے اب جاتے ہیں مے خانے کو ہم
پھینک کر ظرفِ وضو لیتے ہیں پیمانے کو ہم
کیا مگس بیٹھے بھلا اس شعلہ رو کے جسم پر
اپنے داغوں سے جلا دیتے ہیں پروانے کو ہم
تیرے آگے کہتے ہیں گل کھول کر بازوے برگ
گلشنِ عالم سے ہیں تیار اڑ جانے کو ہم
کون کرتا ہے بتوں کے آگے سجدہ زاہدا!
سر کو دے دے مار کر...
جان ہم تجھ پہ دیا کرتے ہیں
نام تیرا ہی لیا کرتے ہیں
چاک کرنے کے لیے اے ناصح
ہم گریبان سیا کرتے ہیں
ساغرِ چشم سے ہم بادہ پرست
مئے دیدار پیا کرتے ہیں
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
سنگِ اسود بھی ہے بھاری پتھر
لوگ جو چوم لیا کرتے ہیں
کل نہ دے گا کوئی مٹی بھی انہیں
آج زر جو...
جل اٹھا باغ اُس کی برقِ حسن کی تاثیر سے
پھول اب گلچیں اٹھاتے ہیں تو آتش گیر سے
چھوٹتا ہے کب لہو میرا کسی تدبیر سے
تیغِ جوہردار قاتل ہے سوا زنجیر سے
مست ہے عالم مرے اشعار کی تاثیر سے
مثلِ مینا مے ٹپکتی ہے مری تقریر سے
فاش ہو باغِ جہاں میں رازِ دل ممکن نہیں
سیکھے ہیں طرزِ فغاں ہم بلبلِ تصویر سے...
میرؔ کی عظمت کا اعتراف اساتذہ کی زبان سے:
سوداؔ:
مرزا سوداؔ جو میرؔ صاحب کے ہمعصر اور مدِّ مقابل تھے، کہتے ہیں
سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرح
ناسخ:
شیخ ناسخؔ جو اپنی تنک مزاجی اور بد دماغی کے لئے مشہور ہیں، کہتے ہیں
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی...
غزل
(شیخ امام بخش ناسخ)
پھر قیامت زا ہوا ہلنا لب خاموش کا
پھر نظر آنے لگا موسم جنوں کے جوش کا
پھر مرے سر نے کیا ہے داغ سودا کو کلاہ
پھر لیا کام آبلوں سے پاؤں نے پاپوش کا
شوق عریانی نے پھر کیں پیرہن کی دھجیاں
پھر اُتروایا جنوں نے بوجھ میرے دوش کا
لگ گئی ہے پھر جو ان روزوں میں چُپکی سی...