بے بساں بے چاریاں دے دستگیراں نوں سلام
آدمیت دی ریاست دے امیراں نوں سلام
سر کٹا کے سر بلندی دے گئے نیں دین نوں
سَین زینب تیرے غیرتمند ویراں نوں سلام
تیریاں ہوٹھاں تے جمیاں ہوئیاں چُپاں تے درود
تیریاں اکھاں چوں کردے ہوئے نیراں نوں سلام
جگمگایا دین دا جھگا بہتر غازیاں
نکے وڈے غازیاں روشن ضمیراں...
تمام شہرِ ستمگر مری تلاش میں ہے
ہر ایک ہاتھ کا پتھر مری تلاش میں ہے
گناہِ زندگی کر کے میں چھپتا پھرتا ہوں
قضا ازل سے برابر مری تلاش میں ہے
غمِ حبیب خدارا پناہ دے مجھ کو
غمِ حیات کا لشکر مری تلاش میں ہے
میں بھاگتا پھرا پیچھے یونہی مقدر کے
خبر نہ تھی کہ مقدر مری تلاش میں ہے
جو تشنگی...
دل نوں سوچ وچار بڑے نیں
بھارے پیار دے بھار بڑے نہیں
قوم دی قسمت بدلن لئی
دیوانے دو چار بڑے نیں
بھیڑ پئی تے اکھاں کھلیاں
ایویں بھل سی یار بڑے نیں
خونوں خون غریبی آگئ
لوکاں کیتے وار بڑے نیں
ناز اوریں وی کھا گئے دھوکہ
سنیا سی ہوشیار بڑے نیں
پھیر لیں یاروں نے آنکھیں بخت ڈھل جانے کے بعد
تتلیاں آتیں نہیں پھولوں پہ، مرجھانے کے بعد
باعثِ مرگِ اَنا میری یہی پستی بنی
خود کو قاتل لگ رہا ہوں ہاتھ پھیلانے کے بعد
باغ میں ٹھمکے لگاتی پھرتی ہے فصلِ بہار
سرخ جھمکے نوجواں شاخوں کو پہنانے کے بعد
کر دیا دل لے کے اس نے مجھ کو پابندِ وفا
قید بھی...
دل سے دنیا ہے عزیز آج بھی انسانوں کو
بھینٹ رسموں کی چڑھا دیتے ہیں ارمانوں کو
گھر سے باہر نہ کبھی راز نکالا گھر کا
لب پہ آنے نہ دیا درد کے افسانوں کو
فرقہ وارانہ تعصب کی عملداری میں
قتل کرتے ہیں مسلمان، مسلمانوں کو
ان کے دم سے ہی تو قائم ہے فراست کا بھرم
شک کی نظروں سے نہ دیکھا کرو...
صبح کی پہلی کرن سپنے سہانے لے گئی
ایک ساعت ساتھ اپنے ،سو زمانے لے گئی
محفلِ غم سے ابھی میں لوٹ کر آیا ہی تھا
یاد تیری کر کے پھر حیلے بہانے لے گئی
آ لیا رستے میں پہلے تیز آندھی نے مجھے
اور پھر بارش بہا کر شامیانے لے گئی
گردشِ دوراں مرے آنگن میں آئی جب کبھی
دے گئی صدمے نئے کچھ غم پرانے لے گئی...
محنت سے مرے ہاتھ پہ چھالے ہی رہے ہیں
قسمت میں مگر خشک نوالے ہی رہے ہیں
اِک آدھ مکاں روز یہاں جلتا رہا ہے
اس شہر کی گلیوں میں اجالے ہی رہے ہیں
مخلص کوئی ایسا ہے، نہ مفلس کو اتنا
ہر رنگ میں ہم سب سے نرالے ہی رہے ہیں
کیا بات ہے ہر دور میں کیوں تیرے کرم سے
محروم ترے چاہنے والے ہی رہے...
بلا سے رنگ اپنا بام و در تبدیل کر لیتے
مگر بزدل تھے ہم کوئی کہ گھر تبدیل کر لیتے
یہاں ہر صاف گو شاعر کھٹکتا ہے رذیلوں کو
بس اتنی بات پر طرزِ ہُنر تبدیل کر لیتے
نہیں تھی عار کوئی جب تمہیں چہرہ بدلنے میں
نہ پھر کیوں ہم بھی اندازِ نظر تبدیل کر لیتے
سرِ دربار دستارِ فضیلت ہم کو مل جاتی
اگر اوروں...
سرِ میدانِ کربل لاشئہ شبیر کے ٹکڑے
جو دیکھے تو ہوئے کیا کیا دلِ ہمشیر کے ٹکڑے
رُلایا ہے لہو مختار نے مجبور کو اکثر
کیے ہیں بارہا تقدیر نے تدبیر کے ٹکڑے
وہاں ملتی نہیں اب نام کو بھی کوئی رنگینی
کبھی جنت نشاں تھے وادئ کشمیر کے ٹکڑے
ذرا کچھ زلزلہ آیا غمِ حالات کا دل میں
ہوئے دیوار سے...
ﻣﯿﺮﮮ ﺟﺬﺑﮯ بھی درخشاں ہیں مثالوں کی طرح
میں بھی آؤں گا کتابوں میں حوالوں کی طرح
رات دن کاٹتا رہتا ہوں مسائل کے پہاڑ
کام جذبے مجھے دیتے ہیں کدالوں کی طرح
صورتِ حال الجھتی ہی چلی جاتی ہے
تیری زلفوں کی طرح، میرے خیالوں کی طرح
دل کی بے ربط امنگوں کے پریشاں اوراق
کسی مزدور کے بکھرے ہوئے بالوں کی...
کرتے تو ہو اس کو نظر انداز عزیزو
یاد آئے گا اِک روز تمہیں نازؔ عزیزو
دبتی ہے کہاں عشق کی آواز عزیزو
سولی پہ بھی ہے نغمہ سرا نازؔ عزیزو
کیا چیز تھی وہ چشمِ فسوں ساز عزیزو
آیا کبھی اپنے میں نہ پھر نازؔ عزیزو
دیوارِ خموشی میں کوئی در تو کُھلا ہے
جیسی بھی ہے گونجی تو ہے آواز عزیزو
آجائے گی خود...
کہنے سننے کا سلیقہ ہے جسے جب آ جائے
میں صدا بندے کو دوں سامنے رب آ جائے
اِک قیامت ہے ملاقات کو آنا اُس کا
میں قیامت کا یقیں کر لوں اگر اب آ جائے
واعظِ شہر کو آتا ہے بہت کچھ لیکن
کاش انسان کا تھوڑا سا ادب آ جائے
برسرِ دار پہنچ جاتے ہیں اکثر ہم لوگ
بات حق کی جو کبھی برسرِ لب آ...
تمہاری راہگزر سے گزر کے دیکھتے ہیں
پھر اس کے بعد نتیجے سفر کے دیکھتے ہیں
یونہی سہی یہ تماشہ بھی کر کے دیکھتے ہیں
کوئی سمیٹ ہی لے گا بکھر کے دیکھتے ہیں
ہمیں ہواؤں کے تیور جو دیکھنے ہوں کبھی
چراغِ جاں کو ہتھیلی پہ دھر کے دیکھتے ہیں
ملال یہ ہے کہ ہم آبرو سے جی نہ سکے
خیال یہ ہے کہ عزت سے مر کے...
جنونِ عشق یہ احسان کر گیا ہے میاں
کہ مجھ کو صاحبِ عرفان کر گیا ہے میاں
وہ اپنا درد مجھے دان کر گیا ہے میاں
بڑا سخی ، بڑا احسان کر گیا ہے میاں
کبھی کبھی تو سمجھ بھی نہیں سکا اس کو
کبھی کبھی تو وہ حیران کر گیا ہے میاں
کمالِ حسن سے ، حسنِ کمال سے گاہے
وہ دل کی مشکلیں آسان کر گیا ہے میاں
چراغِ...
خوشی ہوتی تو ہے لیکن بہت ساری نہیں ہوتی
ترے ملنے سے اب وہ کیفیت طاری نہیں ہوتی
یہ اہلِ دل کی محفل ہے یہاں بیٹھو تسلی سے
کسی سے بھی یہاں کوئی ریاکاری نہیں ہوتی
مجھے جرمِ طلب پر مفلسی مجبور کرتی ہے
مگر مجھ سے ہنر کے ساتھ غداری نہیں ہوتی
یہ لازم ہے غریبوں کے حقوق ان کو دیئے جائیں
فقط خیرات سے تو...
تذکرہ ساقی کا جس میں ہو، نہ پیمانے کا نام
کوئی کیا رکھے گا ایسے خشک افسانے کا نام
گرد لوگوں نے کدورت کی اڑائی جس قدر
اور بھی چمکا جہاں میں تیرے دیو انے کا نام
وہ مَسل کر بھیجتا ہے پھول میرے واسطے
ذکر کرتا ہے مرا وہ لے کے بیگانے کا نام
تشنگی کے زخم جل اٹھتے ہیں جب احساس میں
گھول کر پانی میں...
نہ ایسے بھی خدایا زہد و تقویٰ کا بھرم نکلے
فقیہانِ حرم کی آستینوں سے صنم نکلے
محبت کی بہار آئی مگر خالی گئی آ کر
حصارِ بدگمانی سے نہ تم نکلے نہ ہم نکلے
اتارا میں نے جب اپنا سفینہ بحرِ الفت میں
نجانے کتنے طوفانِ حوادث یم بہ یم نکلے
ترے چہرے کو مہر و ماہ سے تشبیہہ دوں کیونکر
کہ مہر و ماہ سے...
رات دِن میزانِ غم پر تولتی رہ جائے گی
زندگی مجھ کو رلاتی رولتی رہ جائے گی
پھڑ پھڑا کر اپنے پر پنچھی کوئی اڑ جائے گا
دیر تک سونی سی ٹہنی ڈولتی رہ جائے گی
دے کے دستک میں گزر جاؤں گا جھونکے کی طرح
وہ تغافل کیش کھڑکی کھولتی رہ جائے گی
موت اپنا کام کر جائے گی خاموشی کے ساتھ
زندگی کچھ منہ ہی منہ...
تان سازِ درد کی درد آشنا تک جائے گی
بات بندے کی بہر صورت خدا تک جائے گی
جان سے جائے گا میرے ساتھ جو بھی آئے گا
میری غیرت مجھ کو لے کر کربلا تک جائے گی
بات میری سرخئی خوں کی سرِ بزمِ وفا
جب بھی چل نکلی ترے رنگِ حنا تک جائے گی
خسرِو شہرِ جمال آئے گا سوئے گلستاں
خیر مقدم کے لیے بادِ...
نظر فریب نظاروں کو آگ لگ جائے
مری دعا ہے بہاروں کو آگ لگ جائے
خوشی کو چھین لیں،مشکل میں کام آ نہ سکیں
یہی ہیں یار تو یاروں کو آگ لگ جائے
پناہیں دامنِ طوفاں میں مل گئیں مجھ کو
مری بلا سے کناروں کو آگ لگ جائے
جلا رہے ہیں مجھے بے بسی کے دوزخ میں
خدا کرے کہ سہاروں کو آگ لگ جائے
کچھ ایسا زمزمہ چھیڑو...