ناؤ خستہ بھی نہ تھی موج میں دریا بھی نہ تھا
یار اترتا تھا مگر تجھ پہ بھروسہ بھی نہ تھا
زندگی ہاتھ نہ دے پائی مرے ہاتھوں میں
ساتھ جانا بھی نہ تھا ہاتھ چھڑانا بھی نہ تھا
جن پہ اک عمر چلا تھا انہی رستوں پہ کہیں
واپس آیا تو مرا نقش کف پا بھی نہ تھا
غرق دنیا کے لیے دست دعا کیا اٹھتے
کوئی اس گھر...
غزل
ترے شاداب غم کی شبنمی خوشبو سمونے کا
ہنر آیا نہ سطرِ اشک سے کاغذ بھگونے کا
میں ڈھلتی عمر کی جانب سفر میں ہوں مگر اب بھی
مرے اندر کا بچہ منتظر ہے اک کھلونے کا
ہری فصلیں کہاں بنجر زمیں میں لہلہاتی ہیں
مگر میں کیا کروں مجھ کو ہے چسکا بیج بونے کا
قفس میں کب ہواؤں کے پرندے قید...