سلام از مرزا اسد اللہ خان غالب بآواز نیرہ نور
(سلام اُسے کہ اگر بادشاہ کہیں اُس کو)
سلام اسے کہ اگر بادشاہ کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کہ کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو
نہ بادشاہ نہ سلطاں، یہ کیا ستائش ہے؟
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو
مسیح جس سے کرے اخذِ فیضِ جاں بخشی
ستم ہے کُشتۂ تیغِ جفا...
نیرہ نور ہمیشہ سے میری پسندیدہ گلوکارہ رہی ہیں۔ ان کی آواز میں کئی گیت مجھے بے حد پسند ہیں مثلاً یہی ذیل کا گیت یا "بول ری گڑیا بول ذرا" اور "گھٹا گھنگور" وغیرہ
پریت نگر سے پھیری والا میری گلی میں آیا
چُوڑی، لونگ، انگوٹھی، چھلّے رنگ برنگے لایا
میں نے پوچھا "اور بھی کچھ ہے؟" بولا "میٹھا...
ہر چند سہارا ہے ، تیرے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ، ایک عجب خوف سا دل کو
وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی ، لے اڑا نیندیں
وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی ، کھا گیا دل کو
یاں سانس کا لینا بھی ، گذر جانا ہے جی سے
یاں معرکہِ عشق بھی ، ایک کھیل کا دل کو
وہ آئیں تو حیراں ، وہ جائیں تو پریشاں
یارب...
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا، سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی، مجھے رنج ہے یہ برا ہوا
مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی، نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تیر خط ہوا
مجھے آپ کیوں...