غزل
پھرے دشت دشت شاید در و بام کی اُداسی
مرے بعد کیا کرے گی مرے نام کی اُداسی
مرے ہم سفر تھے کیا کیا، میں کسی کو اب کہوں کیا
کوئی دھوپ دوپہر کی، کوئی شام کی اُداسی
کہیں اور کا ستارہ مری آنکھ پر اُتارا
مجھے آسماں نے دی ہے بڑے کام کی اُداسی
مجھے یاد آرہی ہے وہ سفر کی خوش گواری
مرا دل دکھا رہی...
غزل
بہت چپ ہو شکایت چھوڑ دی کیا
رہ و رسمِ محبت چھوڑ دی کیا
یہ کیا اندر ہی اندر بُجھ رہے ہو
ہواؤں سے رقابت چھوڑ دی کی
مناتے پھر رہے ہو ہر کسی کو
خفا رہنے کی عادت چھوڑ دی کیا
لیے بیٹھی ہیں آنکھیں آنسوؤں کو
ستاروں کی سیاحت چھوڑ دی کیا
غبارِ دشت کیوں بیٹھا ہوا ہے
مرے آہو نے وحشت...