اسی زمین میں حضرت امیر مینائی کی ایک غزل "تند مے اور ایسے کمسن کے لیے" ہم نے کچھ عرصہ قبل ارسال کی تھی۔ آج حضرت داغ دہلوی کی غزل ملاحظہ فرمائیں:
تم نے بدلے ہم سے گن گن کے لیے
ہم نے کیا چاہاتھا اس دن کے لیے
کچھ نرالا ہے جوانی کا بناؤ
شوخیاں زیور ہیں اس سن کے لیے
وصل میں تنگ آ کے وہ کہنے لگے...
بزمِ دشمن میں نہ کھلنا گلِ تر کی صورت
جاؤ بجلی کی طرح آؤ نظر کی صورت
نہ مٹانے سے مٹی فتنہ و شر کی صورت
نظر آتی نہیں اب کوئی گذر کی صورت
سوچ لے پہلے ہی تو نفع و ضرر کی صورت
نامہ بر تجھ کو بھلا دیں گے وہ گھر کی صورت
کیا خبر کیا ہوئی فریاد و اثر کی صورت
کہ ادھر کب نظر آتی ہے ادھر کی صورت...