حضرت دل آپ ہیں جس دھیان میں
مر گئے لاکھوں اسی ارمان میں
گر فرشتہ وش ہوا کوئی تو کیا
آدمیت چاہئے انسان میں
جس نے دل کھویا اسی کو کچھ ملا
فائدہ دیکھا ۔ اسی نقصان میں
کسی نے ملنے کا کیا وعدہ ۔ کہ داغ
آج ہو تم اور ہی سامان میں
دل میں ہے غم و رنج و الم ۔ حرص و ہوا بند
دنیا میں مخمس کا ہمارے نہ کھلا بند
موقوف نہیں دام و قفس پر ہی اسیری
ہر غم میں گرفتار ہوں ہر فکر میں پابند
اے حضرت دل !جائیے ۔ میرا بھی خدا ہے
بے آپ کے رہنے کا نہیں کام مرا بند
دم رکتے ہی سینہ سے نکل پڑتے ہیں آنسو
بارش کی علامت ہے جو ہوتی ہے...
وہ زمانہ نظر نہیں آتا
کچھ ٹھکانہ نظر نہیں آتا
دل نے اس بزم میں بٹھا تو دیا
اٹھ کے جانا نظر نہیں آتا
رہئے مشتاق جلوہ دیدار
ہم نے مانا نظر نہیں آتا
لے چلو مجھکو رہروان عدم
یہاں ٹھکانہ نظر نہیں آتا
دل پر آرزو لٹا اے داغ
وہ خزانہ نظر نہیں آتا
جہاں تیرے جلوہ سے معمور نکلا
پڑی آنکھ جس کوہ پر طور نکلا
یہ سمجھے تھے ہم ایک چرکہ ہے دل پر
دبا کر جو دیکھا ۔ تو ناسور نکلا
نہ نکلا کوئی بات کا اپنی پورا
مگر ایک نکلا تو منصور نکلا
وجود و عدم دونوں گھر پاس نکلے
نہ یہ دور نکلا ۔ نہ وہ دور نکلا
سمجھتے تھے ہم داغ گمنام ہو گا
مگر وہ...