غزلِ
نواب مُصطفٰی خاں شیفتہ
رات واں گُل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا
صُبح بُلبُل کی روِش ہمدَمِ افغاں دیکھا
کوئی بے جان جہاں میں نہیں جیتا ،لیکن
تیرے مہجوُر کو جیتے ہُوئے بے جاں دیکھا
میں نے کیا جانیے کِس ذوق سے دی جاں دَمِ قتل
کہ بہت اُس سے سِتم گر کو پشیماں دیکھا
نہ ہُوا یہ کہ ، کبھی اپنے...
غزل
نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ
ہوا نہ مدّ نظر چشم یار کے بدلے
ہزار رنگ یہاں روزگار کے بدلے
صبا کو بھائی جو محفل کی تیری، رنگینی
چمن کو داغ دیے لالہ زار کے بدلے
کِیا ارادہ اگر سیرِ باغ کا تم نے!
قیامت آئے گی ابر بہار کے بدلے
خلافِ عہد ہے شیوہ، تو کیا قباحت ہے؟
ستم کا عہد، وفا کے قرار کے...