بلبل کو بھی نہیں ہے دماغِ صدائے گل
بگڑی ہے تیرے دور میں ایسی ہوائے گل
ہنگامِ غش جو غیر کو اس نے سنگھائے گل
جنت میں لے چلی مری جاں کو ہوائے گل
ایما ہے بعدِ مرگ بھی ہم بے وفا رہے
اس واسطے مزار پہ میرے چڑھائے گل
مرتی ہیں گل کے نام پہ ہی بلبلیں کہ اب
پھرتی ہیں ساتھ ساتھ مرے جب سے کھائے گل
کھٹکوں...
کچھ امتیاز مجھ کو نہ مے کا نہ ساز کا
ناچار ہوں کہ حکم نہیں کشفِ راز کا
لگتی نہیں پلک سے پلک جو تمام شب
ہے ایک شعبدہ مژۂ نیم باز کا
دشمن پئے صبوح جگاتے ہیں یار کو
یہ وقت ہے نسیمِ سحر اہتزاز کا
ایمن ہیں اہلِ جذبہ کہ رہبر ہے ان کے ساتھ
سالک کو ہے خیال نشیب و فراز کا
پھنسنے کے بعد بھی ہے وہی دل...
عذر اک ہاتھ لگا ہے اُنھیں یاں آنے میں
کیوں کہا میں نے کہ چلیے میرے غم خانےمیں
سیرِ وحشت کو جو اک خلق چلی آتی ہے
شہر آباد ہوا ہے میرے ویرانے میں
ہم بھی محروم سہی،غیر تو ہوں گے محروم
لطف آجائے اگر یار کو شرمانے میں
یہ تو سچ ہے کہ کُجا محتسب و بادہ کشی
پھر بایں جوش یہ کیوں آتے ہیں میخانے...
پھر محّرک ستم شعاری ہے
پھر انہیں جستجو ہماری ہے
پھر وہی داغ و دل سے صحبت گرم
پھر وہی چشم و شعلہ باری ہے
پھر وہی جوش و نالہ و فریاد
پھر وہی شورِ آہ و زاری ہے
پھر خیالِ نگاہِ کافر ہے
پھر تمنائے زخم کاری ہے
پھر وہاں طرزِ دلنوازی ہے
پھر یہاں رسمِ جاں نثاری ہے
پھر وہی بے قراریِ تسکیں
پھر...
شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں
جب یوں نگاہبانئ مرغِ سحر کریں
محفل میں اک نگاہ اگر وہ ادھر کریں
سو سو اشارے غیر سے پھر رات بھر کریں
طوفانِ نوح لانے سے اے چشم فائدہ؟
دو اشک بھی بہت ہیں، اگر کچھ اثر کریں
آز و ہوس سے خلق ہوا ہے یہ نامراد
دل پر نگاہ کیا ہے، وہ مجھ پر نظر کریں
کچھ اب کے...
تقلیدِ عدو سے ہمیں ابرام نہ ہو گا
ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا
صیاد کا دل اس سے پگھلنا متعذر
جو نالہ کہ آتش فگنِ دام نہ ہو گا
جس سے ہے مجھے ربط وہ ہے کون، کہاں ہے
الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہو گا
بے داد وہ اور اس پہ وفا یہ کوئی مجھ سا
مجبور ہوا ہے، دلِ خود کام نہ ہو گا
وہ غیر کے...