نوید صادق
غمِ دیگر
میں جو گُم صُم سرِ سوادِ ذات
تار و پودِ سکوں سے اُلجھا ہوں
دیکھتا ہوں، ہوا میں لہراتے
مخملیں زرد رُو کنول کے پھول
ساحلِ خواب پر اُمنڈتی دُھند
جان لیوا سکوتِ صحرا میں
اپنے ہونے کی نفی کرتا ہوں
کش مکش کا سبب کسے معلوم
سایہ ابر میں مرا سایہ
کھو گیا ریت کی تہوں...