غزل
نُورلکھنوی
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جُرم ہے پتا ہی نہیں
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جُھوٹ کی کوئی اِنتہا ہی نہیں
اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں کچُھ بچا ہی نہیں
زندگی! موت تیری منزل ہے
دُوسرا کوئی راستا ہی نہیں
جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اُس کا ، کوئی اتا پتا ہی...
غزلِ
نُورلکھنوی
وہ لب کہ جیسے ساغر و صہبا دِکھائی دے
جُنبش جو ہو تو، جام چھلکتا دِکھائی دے
دریا میں یُوں تو ہوتے ہیں، قطرے ہی قطرے سب
قطرہ وہی ہے، جس میں کہ دریا دِکھائی دے
کیوں آئینہ کہیں اُسے، پتھر نہ کیوں کہیں
جس آئینے میں عکس نہ اُس کا دِکھائی دے
اُس تشنہ لب کی نیند نہ ٹُوٹے دُعا کرو...
اک غزل اُس پہ لکھوں دل کا تقاضا ہے بہت
اِن دنوں خود سے بچھڑ جانے کا دھڑکا ہے بہت
رات ہو دن ہو غفلت ہو کہ بیداری ہو
اُس کو دیکھا تو نہیں ہے اُسے سوچا ہے بہت
تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا یعنی
کبھی دریا نہیں کافی ، کبھی قطرہ ہے بہت
میرے ہاتھوں کی لکیروں کے اضافے ہیں گواہ
میں نے پتھر...
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں
سچ گھٹے یا بڑے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں کچھ بچا ہی نہیں
زندگی، موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی راستا ہی نہیں
جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اُس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں
اپنی رچناؤں میں...