ہم کہتے ہیں حالِ زار کم کم
جی جان کو ہے قرار کم کم
طیبہ کے چمن کی رہ نہیں تھی
جس رہ میں چبھے ہیں خار کم کم
سینے کی وہی ہے آنچ دھیمی
مژگاں سے وہی پھوار کم کم
قربت کا وہی بڑھا بڑھا شوق
فرقت کی وہی سہار کم کم
امت پہ تری پڑا عجب وقت
تعداد بہت، رفتار کم کم
تجھ سے جو ملا جنونِ ایماں
دانش پہ ہے اب...