شعلۂ غم
٭
اک داغِ نہاں چمک رہا ہے
اک زخمِ جگر مہک رہا ہے
اک جامِ الم چھلک رہا ہے
اک شعلۂ غم بھڑک رہا ہے
ہر موجِ ہوا کی سانس رکتی
ہر ذرے کا دل دھڑک رہا ہے
اک قافلۂ بہارِ فردا
صحرا میں کہیں بھٹک رہا ہے
میرے قلمِ ہنر کے دل میں
نشتر سا کوئی کھٹک رہا ہے
پھر آنکھ کا بھر گیا کٹورا
پھر بادہ چھلک...