غزل
(نظام رامپوری)
کبھی ملتے تھے وہ ہم سے زمانہ یاد آتا ہے
بدل کر وضع چھپ کر شب کو آنا یاد آتا ہے
وہ باتیں بھولی بھولی اور وہ شوخی ناز و غمزہ کی
وہ ہنس ہنس کر ترا مجھ کو رُلانا یاد آتا ہے
گلے میں ڈال کر بانہیں وہ لب سے لب ملا دینا
پھر اپنے ہاتھ سے ساغر پلانا یاد آتا ہے
بدلنا کروٹ اور تکیہ مرے...
غزل
(نظام رامپوری)
وہ بگڑے ہیں، رکے بیٹھے ہیں، جھنجلاتے ہیں، لڑتے ہیں
کبھی ہم جوڑتے ہیں ہاتھ گاہے پاؤں پڑتے ہیں
گئے ہیں ہوش ایسے گر کہیں جانے کو اُٹھتا ہوں
تو جاتا ہوں اِدھر کو اور اُدھر کو پاؤں پڑتے ہیں
ہمارا لے کے دل کیا ایک بوسہ بھی نہیں دیں گے
وہ یوں دل میں تو راضی ہیں مگر ظاہر جھگڑتے ہیں...
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دیے مسکرا کے ہاتھ
بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں
کیا منہ پر اس نے رکھ لیے آنکھیں چرا کے ہاتھ
یہ بھی نیا ستم ہے حنا تو لگائیں غیر
اور اس کی داد چاہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ
بے اختیار ہوکے جو میں پاؤں پر گرا
ٹھوڑی کے نیچے اس نے...
ایسے کو شبِ وصل لگائے کوئی کیا ہاتھ
ہر بار جھٹک کر جو کہے ٹوٹے ترا ہاتھ
یوں آپ کریں غیر کے شکوے مرے آگے
یہ آپ کے مضمون نیا آج لگا ہاتھ
اس بات کے ملنے کی بھی کچھ پائی گئی بات
قاصد ترے صدقے پہ اگر سچ ہے تو لا ہاتھ
یہ رشک ہے تو آپ ہے اب دل کو شکایت
ظالم مرے ملنے سے نہ تو ایسا اُٹھا...