"محبت ہو کہ رہتی ہے"
ہماری ایک آزاد نظم
محبت کی کہانی میں بدن
گر ہار بھی جائے
تمازت کم نہیں ہوتی
محبت روح کی مستی
محبت با صفاء جذبہ
محبت نور کا بندھن
محبت روح کا ایندھن
محبت نالہ آدم
محبت نوح کا ماتم
محبت طور پر روشن
محبت ہر صدی اور ہر زمانے میں
ہر اک ظالم سے ٹکرائی
کبھی طائف کی گلیوں میں...
غزل
غم کے ہاتھوں جو مِرے دِل پہ سماں گُذرا ہے
حادثہ ایسا ، زمانے میں کہاں گُذرا ہے
زندگی کا ہے خُلاصہ، وہی اِک لمحۂ شوق !
جو تِری یاد میں، اے جانِ جہاں ! گُذرا ہے
حالِ دِل غم سے ہے جیسے کہ، کسی صحرا میں!
ابھی اِ ک قافلۂ نوحہ گراں گُذرا ہے
بزمِ دوشیں کو کرو یاد،کہ اُس کا ہر رِند
رونقِ بارگۂ...
غزل
جو مُشتِ خاک ہو، اِس خاکداں کی بات کرو
زمِیں پہ رہ کے، نہ تم آسماں کی بات کرو
کسی کی تابشِ رُخسار کا ، کہو قصّہ!
کسی کی، گیسُوئے عنبر فِشاں کی بات کرو
نہیں ہُوا جو طُلوُع آفتاب، تو فی الحال !
قمر کا ذکر کرو، کہکشاں کی بات کرو
رہے گا مشغلۂ یادِ رفتگاں کب تک؟
گُزر رہا ہے جو ، اُس...
نظیر اکبرآبادی -عوامی مقبولیت کے پسندیدہ شاعر
٭ ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی مالیگاؤں
نظیر اکبرآبادی :مختصرحالاتِ زندگی
نظیرؔ اکبرآبادی کا پورا نام ولی محمد تھا۔ اکبرآباد کے ایک شریف گھرانے میں نظیر اکبرآبادی کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان کے والد سیّد محمد فاروق عظیم آباد کے نواب کے...
نظیر اکبرآبادی کی شاعری میں مناظر قدرت کی عکاسی
٭ ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی مالیگاؤں
بنیادی طور پر نظیرؔ ایک عوامی شاعر ہیں اس لئے ان کی شاعری میں جہاں قدرتی مناظر کا عکس دکھائی دیتا ہے وہیں عرس، میلوں اور تہواروں کے مناظر بھی پیش کئے گئے ہیں۔ ان کی مشہور نظم ’’برسات کی بہاریں‘‘...