غزل
نظیؔر اکبر آبادی
ہو کیوں نہ تِرے کام میں حیران تماشا
یا رب ! تِری قُدرت میں ہےہر آن تماشا
لے عرش سےتا فرش نئے رنگ، نئے ڈھنگ
ہر شکل عجائب ہے، ہر اِک شان تماشا
افلاک پہ تاروں کی جَھلکتی ہے طلِسمات
اور رُوئے زمیں پر گُل و ریحان تماشا
جِنّات، پَری، دیو، ملک، حوُر بھی نادر
اِنسان عجوبہ ہیں...
غزل
نظیؔر اکبر آبادی
تُو کہتا ہے مَیں آؤں گا دو چار گھڑی میں
مرجائے گا ظالِم! تِرا بیمار گھڑی میں
جس کام کو برسات میں لگتے ہیں مہینے!
وہ، کرتے ہیں یہ دِیدۂ خونبار گھڑی میں
مَیں تُجھ کو نہ کہتا تھا نظیرؔ اُس سے نہ مِلنا
اب دیکھیو حال اپنا ذرا، چار گھڑی میں
نظیرؔ اکبرآبادی
غزل
نظیؔر اکبر آبادی
گُل رنگی و گُل پیرَہَنی گُل بَدَنی ہے
وہ نامِ خُدا حُسن میں سچ مُچ کی بنی ہے
گُلزار میں خُوبی کے اب اُس گُل کے برابر
بُوٹا ہے نہ شمشاد نہ سرو چَمَنی ہے
انداز بَلا، ناز، سِتم، قہر، تبسّم
اور تِس پہ غضب کم نگہی، کم سُخَنی ہے
اُس گورے بدن کا کوئی کیا وصف کرے آہ !
ختم اُس کے...
غزل
کُچھ تو ہوکر دُو بَدُو، کُچھ ڈرتے ڈرتے کہہ دِیا
دِل پہ جو گُذرا تھا ، ہم نے آگے اُس کے کہہ دِیا
باتوں باتوں میں جو ہم نے، دردِ دِل کا بھی کہا !
سُن کے بولا، تُو نے یہ کیا بکتے بکتے کہہ دِیا
اب کہیں کیا اُس سے ہمدم ! دِل لگاتے وقت آہ
تھا جو کُچھ کہنا، سو وہ تو ہم نے پہلے کہہ دِیا
چاہ...
غزل
نہ مَیں دِل کو اب ہر مکاں بیچتا ہُوں
کوئی خوب رَو لے تو ہاں بیچتا ہُوں
وہ مَے جس کو سب بیچتے ہیں چُھپا کر
میں اُس مَے کو یارو ! عیاں بیچتا ہُوں
یہ دِل، جس کو کہتے ہیں عرشِ الٰہی
سو اِس دِل کو یارو! میں یاں بیچتا ہُوں
ذرا میری ہّمت تو دیکھو عَزِیزو !
کہاں کی ہے جِنس اور کہاں بیچتا ہُوں...
جاڑے کی بہاریں
جب ماہ اگھن کا ڈھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور ہنس ہنس پوس سنبھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
دن جلدی جلدی چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور پالا برف پگھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
چلا غم ٹھونک اچھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
تن ٹھوکر مار پچھاڑا ہو اور دل سے ہوتی ہو کشتی...
غزل
نظؔیر اکبر آبادی
عِشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانتا ہے
دِل کا یہ رنگ بنایا ہے کہ جی جانتا ہے
ناز اُٹھانے میں جفائیں تو اُٹھائِیں، لیکن
لُطف بھی ایسا اُٹھایا ہے کہ جی جانتا ہے
زخم، اُس تیغ نِگہ کا ، مِرے دِل نے ہنس ہنس
اِس مزیداری سے کھایا ہے کہ جی جانتا ہے
اُس کی دُزدِیدہ نگہ...
غزل
دامان و کنار اشک سے کب تر نہ ہُوئے آہ
دہ چار بھی آنسو مِرے گوہر نہ ہُوئے آہ
کہتے ہیں کہ ، نِکلا ہے وہ اب سیرِ چمن کو
کیا وقت ہے اِس وقت مِرے پر نہ ہُوئے آہ
خُوباں کے تو کہلائے بھی ہم بندہ و فدوی
لیکن وہ ہمارے نہ ہُوئے پر نہ ہُوئے آہ
کیا تفرقہ ہے جب کہ گئے ہم تو نہ تھا وہ ...
غزل
سبھوں کو مے، ہمَیں خُونابِ دِل پلانا تھا
فلک مجھی پہ تجھے کیا یہ زہر کھانا تھا
لگی تھی آگ جگر میں بُجھائی اشکوں نے
اگر یہ اشک نہ ہوتے تو کیا ٹِھکانہ تھا
نِگہ سے اُس کی بچاتا میں کِس طرح دِل کو
ازل سے یہ تو اُسی تِیر کا نِشانہ تھا
نہ کرتا خُوں میں ہمَیں، کِس طرح وہ رنگیں آہ
اُسے تو...
جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
اور دف کے شور کھڑکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
پریوں کے رنگ دمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
خم، شیشے، جام، جھلکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
محبوب نشے میں چھکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
ہو ناچ رنگیلی پریوں کا بیٹھے ہوں گل رو رنگ بھرے...
پری کا سراپا
خُوں ریز کرشمہ، ناز و ستم، غمزوں کی جھُکاوٹ ویسی ہے
مژگاں کی سناں، نظروں کی انی، ابرو کی کھِچاوٹ ویسی ہے
قتّال نگہ اور ڈشٹ غضب، آنکھوں کی لَگاوٹ ویسی ہے
پلکوں کی جھَپک، پُتلی کی پھِرت، سُرمے کی گھُلاوٹ ویسی ہے
عیّار نظر، مکّار ادا، تیوری کی چَڑھاوٹ ویسی ہے
بے درد، ستمگر، بے پروا،...
خود آپ اپنی نظر میں حقیر میں بھی نہ تھا
اس اعتبار سے اس کا اسیر میں بھی نہ تھا
بنا بنا کے بہت اُس نے جی سے باتیں کیں
میں جانتا تھا مگر حرف گیر میں بھی نہ تھا
نبھا رہا ہے یہی وصفِ دوستی شاید
وہ بے مثال نہ تھا بے نظیر میں بھی نہ تھا
سفر طویل سہی گفتگو مزے کی رہی!
وہ خوش مزاج اگر تھا تو میر...
بے جرم و خطا یار نہ کر چشم نمائی، تیوری کو چڑھا کر
اور رنجشِ بے جا سے نہ کر صاف لڑائی، منہ سرخ بنا کر
اس حور کی کب ہم سے ہوئی عہدہ برائی، اتنی نہ جفا کر
کرتا ہوں ترے ہجر میں اے شوخ پری زاد، میں نالہ و فریاد
دیتا نہیں خاطر سے تری اے ستم ایجاد، جب کوئی مری داد
پھر ہار کے دیتا ہوں میں تیری ہی...
ہم نے پوچھا آپ کا آنا ہوا یاں کس روش
ہنس کے فرمایا لے آئی آپ کے دل کی کشش
دل جونہی تڑپا وہیں دلدار آ پہونچا شتاب
اپنے دل کی اس قدر تاثیر رکھتی ہے طپش
سیر کو آیا تھا جس گلشن میں کل وہ نازنیں
تھی عجب نازاں بخود اس باٹ* کی اِک اِک روش
ڈالتی ہے زلفِ پیچاں گردنِ دل میں کمند
اور رگِ جاں سے کرے ہے...
غزل
(اصغر حسین خاں نظیر)
خندہ بہ لب، شگفتہ رُو، ناز سے آرہے ہو تم
میری نگاہِ شوق پر حُسن لُٹا رہے ہو تم
زلفِ دراز کھول کر خود کو چھُپارہے ہو تم
کیفیت و سرور کا پردہ بنا رہے ہو تم
ہیر کے شعر دمبدم سوز سے گارہے ہو تم
کس کے کمالِ عشق کا حال سنا رہے ہو تم
طرّہء زلفِ عنبریں کھول...
خوں ریز کرشمہ ناز ستم، غمزوں کی جھُکاوٹ ویسی ہی
پلکوں کی جھپَک، پُتلی کی پھِرَٹ، سُرمے کی گھُلاوٹ ویسی ہی
بے درد، ستم گر، بے پرواہ، بے کل، چنچل، چٹخیلی سی
دل سخت قیامت پتھر سا اور باتیں نرم رسیلی سی
چہرے پر حُسن کی گرمی سے ہر آن چمکتے موتی سے
خوش رنگ پسینے کی بُوندیں سو بار جھَمکتے موتی سی...
ملا آج وہ مجھ کو چنچل چھبیلا
ہوا رنگ سُن کر رقیبوں کا نیلا
لیا جس نے مجھ سے عداوت کا پنجہ
سنلقی علیہم عذاباً ثقیلا
نکل اس کی زلفوں کے کوچہ سے اے دل
تُو پڑھنا، قم اللّیلَ الّا قلیلا
کہستاں میں ماروں اگر آہ کا دم
فکانت جبالاً کثیباً مہیلا
نظیر اس کے فضل و کرم پر نظر رکھ
فقُل، حسبی اللہ نعم...
نظیر اکبرابادی کے چند اشعار :
جب آدمي کے پيٹ ميں جاتي ہيں روٹياں
پھولے نہيں بدن ميں سماتي ہيں روٹياں
آنکھيں پري رخوں سے لڑاتي ہيں روٹياں
سينہ اپر بھي ہاتھ جلاتي ہيں روٹياں
جتنے مزے ہيں سب يہ دکھاتي ہيں روٹياں
روٹي سے جس کا ناک تلک پيٹ ہے بھرا
کرتا پھرتا ہے کيا وہ اچھل کود جا بجا...