غزل
دہن کو زخم، زباں کو لہوُ لہوُ کرنا
عزیزو! سہل نہیں اُس کی گُفتگوُ کرنا
کُھلے درِیچوں کو تکنا، تو ہاؤ ہُو کرنا
یہی تماشا سرِ شام کوُ بہ کوُ کرنا
جو کام مجھ سے نہیں ہو سکا،وہ تُو کرنا
جہاں میں اپنا سفر مِثلِ رنگ و بُو کرنا
جہاں میں عام ہیں نکتہ شناسیاں اُن کی
تم ایک لفظ میں تشریحِ آرزُو...