عجب کچھ واہموں میں گِھر گئے ہیں
بہت سے دُشمنوں میں گِھر گئے ہیں
تلاشِ ذات بھی باقی نہیں ہے!!
انا کے بُت کدوں میں گِھر گئے ہیں
سیاست دُور تک پھیلی ہوئی ہے
گھروں کی سازشوں میں گِھر گئے ہیں
سفینے آ ملے ساحل سے لیکن!!
ہوا کے راستوں میں گِھر گئے ہیں
خِرد کی منزلیں طے کر چکے جب
جُنوں کے مرحلوں میں...