غزل
پروین فنؔا سید
تُو جِسے زخمِ آشنائی دے!
وہ تڑپتا ہُوا دِکھائی دے
تیری چاہت کے جبرِ پیہم میں!
کب سے زنجِیر ہُوں، رہائی دے
رُوح کے جنگلوں میں کِس کی صَدا
جب بھی سوچُوں، مُجھے سُنائی دے
یا قریب آ، رَگِ گُلوُ کی طرح!
یا پھر اِس کرب سے رہائی دے
اِس ہجُومِ بَلا میں کوئی تو
آتشی کی کِرَن...
غزل
پروین فنؔاسید
کم نِگاہی بھی رَوا تھی شاید
آنکھ پابندِ حیا تھی شاید
سر سے آنچل تو نہ ڈھلکا تھا کبھی
ہاں، بہت تیز ہَوا تھی شاید
ایک بستی کے تھے راہی دونوں
رہ میں دِیوارِ اَنا تھی شاید
ہمسفر تھےتو وہ بچھڑے کیوں تھے
اپنی منزل ہی جُدا تھی شاید
میری آنکھوں میں اگر آنسو تھے!
میرے ہونٹوں پہ...