غزل
متاعِ قلب و جگِر ہیں، ہَمَیں کہیں سے مِلَیں
مگر وہ زخم ،جو اُس دستِ شبنَمِیں سے مِلَیں
نہ شام ہے، نہ گھنی رات ہے، نہ پچھلا پہر!
عجیب رنگ تِری چشمِ سُرمگیں سے مِلَیں
میں اِس وِصال کے لمحے کا نام کیا رکھّوں
تِرے لباس کی شِکنیں، تِری جَبِیں سے مِلَیں
ستائشیں مِرے احباب کی نوازِش ہیں
مگر...
غزل
تازہ محبّتوں کا نشہ جسم و جاں میں ہے
پھر موسمِ بہار مِرے گُلستاں میں ہے
اِک خواب ہے کہ بارِ دگر دیکھتے ہیں ہم
اِک آشنا سی روشنی سارے مکاں میں ہے
تابِش میں اپنی مہر و مہ و نجم سے سَوا
جگنو سی یہ زمِیں جو کفِ آسماں میں ہے
اِک شاخِ یاسمین تھی کل تک خِزاں اَثر
اور آج سارا باغ اُسی کی اماں میں...
غزلِ
عُمر کا بھروسہ کیا، پَل کا ساتھ ہوجائے
ایک بار اکیلے میں، اُس سے بات ہوجائے
دِل کی گُنگ سرشاری اُس کو جِیت لے، لیکن
عرضِ حال کرنے میں احتیاط ہوجائے
ایسا کیوں کہ جانے سے صرف ایک اِنساں کے !
ساری زندگانی ہی، بے ثبات ہوجائے
یاد کرتا جائے دِل، اور کِھلتا جائے دِل
اوس کی طرح کوئی پات...
غزلِ
جیسے مشامِ جاں میں سمائی ہُوئی ہے رات
خوشبو میں آج کِس کی نہائی ہُوئی ہے رات
سرگوشِیوں میں بات کریں ابر و باد و خاک
اِس وقت کائِنات پہ چھائی ہُوئی ہے رات
ہر رنگ جس میں خواب کا گُھلتا چلا گیا
کِس رنگ سے خدا نے بنائی ہُوئی ہے رات
پُھولوں نے اُس کا جشن منایا زمِین پر
تاروں نے...
غزلِ
بِچھڑا ہے جو اِک بار، تو مِلتے نہیں دیکھا
اِس زخم کو ہم نے کبھی سِلتے نہیں دیکھا
اِک بار جسے چاٹ گئی دُھوپ کی خواہش
پھر شاخ پہ اُس پھول کو کِھلتے نہیں دیکھا
یک لخت گِرا ہے، تو جڑیں تک نِکل آئیں
جس پیڑ کو آندھی میں بھی ہلتے نہیں دیکھا
کانٹوں میں گِھرے پُھول کو چُوم آئے گی، لیکن...