غزل
قائؔم چاندپُوری
شب جو دِل بیقرار تھا، کیا تھا
اُس کا پِھر اِنتظار تھا، کیا تھا
چشم، در پر تھی صبح تک شاید !
کُچھ کسی سے قرار تھا، کیا تھا
مُدّتِ عُمر، جس کا نام ہے آہ !
برق تھی یا شرار تھا ،کیا تھا
دیکھ کر مجھ کو، جو بزم سے تُو اُٹھا !
کُچھ تجھے مجھ سے عار تھا ، کیا تھا
پِھر گئی وہ...
اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا
دریا ہی پھر تو نام ہے ہر اِک حباب کا
کیوں چھوڑتے ہو دُردِ تہِ جام مے کشو
ذرّہ ہے یہ بھی آخر اسی آفتاب کا
ایسی ہوا میں پاس نہ ساقی نہ جامِ مے
رونا بجا ہے حال پہ میرے سحاب کا
ہونا تھا زندگی ہی میں منہ شیخ کا سیاہ
اس عمر میں ہے ورنہ مزا کیا خضاب کا
اِس دشتِ پر...
غزل
گہہ ہوئی صبح گاہ شام ہوئی
عمر انہیں قصوں میں تمام ہوئی
رنجش آگے جو خاص تھی ہم سے
وائے طالع کہ وہ بھی عام ہوئی
کس گرفتار پر ہوا ہے یہ قہر
جو بلا مجھ پہ زیرِ دام ہوئی
وہی سمجھے ہے رمزِ حکمتِ عین
جس سے وہ چشم ہم کلام ہوئی
یہ بھی نالے کا طور ہے قائم
خواب اِک خلق پر حرام ہوئی
(قائم چاند پوری)
غزل
شب غم سے ترے جان ہی پر آن بنی تھی
جو بال بدن پر ہے سو برچھی کی انی تھی
شب گریہ سے وابستہ مری دل شکنی تھی
جو بوند تھی آنسو کی سو ہیرے کی کنی تھی
بے دردی ہے فرہاد سے نسبت مجھے کرنا
آخر یہ جگر کاوی ہے وہ کوہ کنی تھی
میں کشتہ ہوں اسباب کا تیرے شہدا کا
گر چلتے میں کچھ ساتھ لیا بے کفنی تھی
یک...
غزل
نیا ہر لحظہ ہر داغِ کہن ہے
بہارِ سینہ رشکِ صد چمن ہے
دہن تیرے کو پایا بات کہتے
ہماری جز رسی میں کیا سخن ہے
یہ صحرا ہے بھلا دیکھیں تو بارے
جنوں کیسا ترا دیوانہ پن ہے
نہ جمعِ رخت سے خوش ہو کہ اک روز
ترا منصب وہی دس گز کفن ہے
وہ گویا زخم ہے چہرے کے اوپر
جو بے لطفِ سخن کوئی دہن ہے
شہیدِ...
غزل
درد بن کب ہو اثر نالۂ شب گیر کے بیچ
کارگر کیا ہو وہ، پیکاں نہیں جس تیر کے بیچ
بند اسباب میں ہرگز نہ رہیں وارستہ
کب ٹھہرتی ہے صدا حلقۂ زنجیر کے بیچ
تشنہ لب مر گئے کتنے ہی ترے کوچے میں
ظاہرا آب نہ تھی تجھ دمِ شمشیر کے بیچ
ناصحا! پوچھ نہ احوالِ خموشی مجھ سے
ہے یہ وہ بات کہ آتی نہیں تقریر کے...
غزل
میں نہ وہ ہوں کہ تنک غصے میں ٹل جاؤں گا
ہنس کے تم بات کرو گے میں بہل جاؤں گا
ہم نشیں، کیجیو تقریب تو شب باشی کی
آج کر نشے کا حیلہ میں مچل جاؤں گا
دل مرے ضعف پہ کیا رحم تُو کھاتا ہے کہ میں
جان سے اب کے بچا ہوں تو سنبھل جاؤں گا
سیر اس کوچے کی کرتا ہوں کہ جبریل جہاں
جا کے بولا کہ بس اب آگے...
غزل
عہدے سے تیرے ہم کو بَر آیا نہ جائے گا
یہ ناز ہے تو ہم سے اٹھایا نہ جائے گا
ٹوٹا جو کعبہ کون سی یہ جائے غم ہے شیخ؟
کچھ قصرِ دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
آتش تو دی تھی خانۂ دل کے تئیں میں آپ
پر کیا خبر تھی یہ کہ بجھایا نہ جائے گا
ہوتے ترے محال ہے ہم درمیاں نہ ہوں
جب تک وجودِ شخص ہے سایا نہ...
غزل
پھر کے جو وہ شوخ نظر کر گیا
تیر سا کچھ دل سے گزر کر گیا
خاک کا سا ڈھیر، سرِ رہ ہوں میں
قافلۂ عمر سفر کر گیا
خلد بریں اُس کی ہے واں بود و باش
یاں کسی دل بیچ جو گھر کر گیا
چھپ کے ترے کوچے سے گزرا میں لیک
نالہ اِک عالم کو خبر کر گیا
جوں شرر کاغذِ آتش زدہ
شامِ غم اپنی میں سحر کر گیا...
غزل
دل پا کے اُس کی زلف میں آرام رہ گیا
درویش جس جگہ کہ ہوئی شام رہ گیا
جھگڑے میں ہم مبادی کے یاں تک پھنسے کہ آہ!
مقصود تھا جو اپنے تئیں کام رہ گیا
ناپختگی کا اپنی سبب اُس ثمر سے پوچھ
جلدی سے باغباں کی جو وہ خام رہ گیا
صیّاد تو تو جا ہے پر اُس کی بھی کچھ خبر
جو مرغِ ناتواں کہ تہِ دام رہ گیا...
غزل
پُر ہے یہ مے سے رنگ کی اب کے ایاغِ گُل
جھمکے ہے مثلِ شعلہ ہر اک سو چراغِ گُل
صرفے سے آہ و نالہ کر اے عندلیبِ زار
ڈرتا ہوں میں کہ ہو نہ پریشاں دماغِ گُل
دے کیوں نہ داغِ دل سے دمِ سرد اطلاع
ملتا ہے نت نسیمِ سحر سے سراغِ گُل
مت ڈھونڈ ہم گرفتہ دلوں سے کشادِ طبع
غنچے کو کیوں کہ ہووے میسّر...