غزل
تاثیر پسِ مرگ دِکھائی ہے وفا نے
جو مجھ پہ ہنسا کرتے تھے، روتے ہیں سرہانے
کیا کہہ دیا چُپ کے سے، نہ معلوُم قضا نے
کروَٹ بھی نہ بدلی تِرے بیمارِ جفا نے
ہستی مِری، کیا جاؤں مَیں اُس بُت کو منانے
وہ ضِد پہ جو آئے تو فَرِشتوں کی نہ مانے
اَوراقِ گُلِ تر، جو کبھی کھولے صبا نے
تحرِیر تھے...
غزل
گو دَورِ جام ِبزم میں، تا ختمِ شب رہا !
لیکن، میں تشنہ لب کا وہی تشنہ لب رہا
پروانہ میری طرح مُصِیبت میں کب رہا
بس رات بھر جَلا تِری محِفل میں جب رہا
ساقی کی بزم میں یہ نظامِ ادب رہا !
جس نے اُٹھائی آنکھ، وہی تشنہ لب رہا
سرکار ،پُوچھتے ہیں خفا ہو کے حالِ دل
بندہ نواز میں تو بتانے سے...
غزل
باغِ عالَم میں رہے شادی و ماتم کی طرح
پُھول کی طرح ہنسے ، رَو دِیئے شبنم کی طرح
شِکوہ کرتے ہو ،خوشی تم سے منائی نہ گئی
ہم سے غم بھی تو منایا نہ گیا غم کی طرح
روز محِفل سے اُٹھاتے ہو تو دِل دُکھتا ہے !
اب نکلواؤ تو پھر حضرتِ آدم کی طرح
لاکھ ہم رِند سہی حضرتِ واعظ ، لیکن
آج تک ہم نے نہ...
غزلِ
ابرُو تو دِکھا دیجیے شمشِیر سے پہلے
تقصِیر تو کُچھ ہو، مِری تعزِیر سے پہلے
معلوُم ہُوا اب مِری قِسمت میں نہیں تم
مِلنا تھا مجھے کاتبِ تقدِیر سے پہلے
اے دستِ جنُوں توڑ نہ دروازۂ زِنداں
میں پُوچھ تو لوُں پاؤں کی زنجیر سے پہلے
اچھّا ہُوا، آخر مِری قِسمت میں سِتم تھے
تم مِل گئے مجھ کو...