نہ جانے ساغر و مینا پہ پیمانے پہ کیا گزری
جو ہم پی کر چلے آئے تو میخانے پہ کیا گزری
بڑی رنگینیاں تھیں اولِ شب ان کی محفل میں
بتاؤ بزم والو رات ڈھل جانے پہ کیا گزری
چھپائیں گے کہاں تک رازِ محفل شمع کے آنسو
کہے گی خاکِ پروانہ کہ پروانے پہ کیا گزری
مرا دل جانتا ہے دونوں منظر میں نے دیکھے ہیں
ترے...
غزلِ
ابرُو تو دِکھا دیجیے شمشِیر سے پہلے
تقصِیر تو کُچھ ہو، مِری تعزِیر سے پہلے
معلوُم ہُوا اب مِری قِسمت میں نہیں تم
مِلنا تھا مجھے کاتبِ تقدِیر سے پہلے
اے دستِ جنُوں توڑ نہ دروازۂ زِنداں
میں پُوچھ تو لوُں پاؤں کی زنجیر سے پہلے
اچھّا ہُوا، آخر مِری قِسمت میں سِتم تھے
تم مِل گئے مجھ کو...
غزلِ
استاد قمرجلالوی
حُکمِ صیّاد ہے، تا ختمِ تماشائے بہار!
ساری دنیا کہے، بلبل نہ کہے! ہائے بہار
صبح گُلگشت کو جاتے ہو، کہ شرمائے بہار
کیا یہ مطلب ہے گلستاں سے نِکل جائے بہار
منہ سے کچُھ بھی دمِ رُخصت نہ کہا بُلبُل نے
حرف صیّاد نے اِتنا تو سُنا ہائے بہار
یہ بھی کچُھ بات ہوئی، گُل ہنسے...
غزلِ
قمرجلالوی
ختم ، شب قصّہ مختصر نہ ہوئی
شمع گُل ہو گئی، سحر نہ ہوئی
روئِی شبنم، جَلا جو گھر میرا
پُھول کی کم، مگر ہنسی نہ ہوئی
حشر میں بھی وہ کیا مِلیں گے ہمیں
جب مُلاقات عُمر بھر نہ ہوئی
آئینہ دیکھ کے، یہ کیجے شُکر !
آپ کو، آپ کی نظر نہ ہوئی
سب تھے محفِل میں اُنکے محوِ جَمال...