غزل
شفیق خلشؔ
پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی
خوشبو رَچی تھی یاد، بہت دُور تک گئی
نِسبت سے کیا ہی خُوب نظارے تھے پَیش رُو
اِک یاد لے کے شاد بہت دُور تک گئی
ہم ڈر رہے تھے کوس قیادت پہ زِیست کی !
لے کر پُر اعتماد بہت دُور تک گئی
منزِل کی رَہنُمائی پَزِ یرائی سے مِلی!
پہلی غَزل کی داد بہت دُور...