اور اس کے بعد ہمیشہ مُجھے عدو سمجھے
مری مراد نہیں دوست ہو بہو سمجھے
اگرچہ مادری میری زباں ہے پنجابی
پہ شعر اردو میں کہتا ہوں تاکہ تُو سمجھے
نہ سنگِ لفظ گرائے سکوت دریا میں
کوئی نہیں جو خموشی کی آبرو سمجھے
زبانِ حال سے کہتے رہے حذر لیکن
تھرکتے جسم نہ اعضاء کی گفتگو سمجھے
مجھ ایسے مست...
غزل
شک تجھ کو گمرہی کا کبھی راہبر نہ ہو
یہ شرط ہے کہ خام شُعورِ نظر نہ ہو
ناکامیوں سے عزم نکھرتا ہے اور بھی
دراصل معرکہ تو وہی ہے جو سر نہ ہو
منزل کی جستجو میں نکلنا فضول ہے
جب تک جنونِ شوق، شریکِ سفر نہ ہو
ہم اُس امیرِ شہر سے ہیں عافیت طلب
کس حال میں ہیںلوگ، جسے یہ خبر نہ ہو
یہ...