اجنبی شہر کے اجنبی راستے، میری تنہائی پر مسکراتے رہے
میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا، تم بہت دیر تک یاد آتے رہے
زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا، زندگی کی طرف ایک دریچہ کھلا
ہم بھی گویا کسی ساز کے تار ہیں، چوٹ کھاتے رہے، گنگناتے رہے
زہر ملتا رہا، زہر پیتے رہے، روز مرتے رہے، روز جیتے رہے
زندگی بھی...