ریاض خیر آبادی

  1. فرخ منظور

    صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور ۔ ریاض خیر آبادی

    کچھ آگے قتل گاہ میں ہم سے اجل گئی جانے سے پہلے جان ہماری نکل گئی صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی رکھتے نہ کوئی نام جوانی کو اے ریاض مہمان ایک رات کی آج آئی کل گئی پروانہ آگ کا تھا بنا شمع موم کی دیکھا جو بیقرار اسے یہ پگھل گئی لطفِ شباب جام چھلکنے سے آ...
  2. طاہر راجپوت ملتان

    بھٹکا ہوا خیال ہے عقبیٰ کہیں جسے : ریاض خیر آبادی

    بھٹکا ہوا خیال ہے عقبیٰ کہیں جسے بُھولا ہوا سا خواب ہے دنیا کہیں جسے دیکھے شبِ فراق میں کوئی تو ہم دکھائیں دل کا وہ داغ چاند کا ٹکڑا کہیں جسے ظالمِ کی آرزو نے جگہ لی ہے اس طرح دل میں چُھپا ہوا کوئی کانٹا کہیں جسے اِن آرسی کے دیکھنے والوں کو کیا پرکھ اچھا ہے وہ حسین ہم اچھّا کہیں جسے...
  3. کاشفی

    پی لی ہم نے شراب پی لی - ریاض خیر آبادی

    غزل (ریاض خیرآبادی) پی لی ہم نے شراب پی لی تھی آگ مثالِ آب پی لی اچھی پی لی، خراب پی لی جیسی پائی شراب پی لی عادت سی ہے نشہ نہ اب کیف پانی نہ پیا شراب پی لی چھوڑے کئی دن گزر گئے تھے آئی شب ِ ماہتاب پی لی منہ چوم لے کوئی اس ادا پہ سرکا کے ذرا نقاب پی لی منظور تھی شستگی زباں کی تھوڑی سی شرابِ...
  4. فرخ منظور

    ہم بھی پئیں تمہیں بھی پلائیں تمام رات ۔ ریاض خیر آبادی

    ہم بھی پئیں تمہیں بھی پلائیں تمام رات جاگیں تمام رات، جگائیں تمام رات زاہد جو اپنے روزے سے تھوڑا ثواب دے مے کش اسے شراب پلائیں تمام رات تا صبح مے کدے سے رہی بوتلوں کی مانگ برسیں کہاں یہ کالی گھٹائیں تمام رات شب بھر رہے کسی سے ہم آغوشیوں کے لطف ہوتی رہیں قبول دعائیں تمام رات کاٹا ہے سانپ نے...
  5. فرخ منظور

    جامِ مے توبہ شکن، توبہ مری جام شکن ۔ ریاض خیر آبادی

    غزل کُل مرقعے ہیں ترے چاکِ گریبانوں کے شکل معشوق کی، انداز ہیں دیوانوں کے کعبہ و دیر میں ہوتی ہے پرستش کس کی مے پرستو! یہ کوئی نام ہیں مے خانوں کے جامِ مے توبہ شکن، توبہ مری جام شکن سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے پرِ پرواز بنے خود شررِ شمع کبھی شررِ شمع بنے پر کبھی پروانوں کے ذکر کیا...
  6. فرخ منظور

    ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا ۔ ریاض خیر آبادی

    ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا کہ بزمِ مے میں کوئی پارسا اب تک نہیں آیا ستم بھی لطف ہو جاتا ہے بھولے پن کی باتوں میں تجھے اے جان، اندازِ جفا اب تک نہیں آیا گیا تھا کہہ کے یہ قاصد کہ الٹے پاؤں آتا ہوں کہاں کم بخت جا کر مر رہا، اب تک نہیں آیا ستم کرنا، دغا کرنا، کہ وعدے کا وفا کرنا بتاؤ،...
  7. کاشفی

    ساغر چڑھائے پھول کے ہرشاخسار نے - ریاض خیرآبادی

    غزل (ریاض خیر آبادی) ساغر چڑھائے پھول کے ہرشاخسار نے دریا بہا دئے خم ابر بہار نے روشن کئے چراغِ لحد لالہ زار نے اس مرتبہ تو آگ لگادی بہار نے اودی گھٹائیں چھائی ہیں اے میکشو چلو پریوں کے تخت روک لئے سبزہ زار نے اتنا تو ہم بھی جانتے ہیں ایک آہ کی بے آس ہو کے اس دل امیدوار نے...
  8. کاشفی

    بہار نام کی ہے، کام کی بہار نہیں - ریاض خیر آبادی

    غزل (مُنشی سید ریاض احمد ، متخلص ریاض - خیر آبادی، شاعری کا وطن لکھنؤ) بہار نام کی ہے، کام کی بہار نہیں کہ دستِ شوق کسی کے گلے کا ہار نہیں رہے گی یاد اُنہیں بھی ، مجھے بھی، وصل کی رات کہ اُن سا شوخ نہیں، مجھ سا بیقرار نہیں سحر بھی ہوتی ہے چلتے ہیں اے اجل ہم بھی اب اُن کے آنے کا...
  9. کاشفی

    میرے سر پہ کبھی چڑھی ہی نہیں - مُنشی سید ریاض احمد

    غزل (مُنشی سید ریاض احمد ، متخلص ریاض - خیر آبادی، شاعری کا وطن لکھنؤ) میرے سر پہ کبھی چڑھی ہی نہیں میں نے کچے گھڑے کی پی ہی نہیں ہائے سبزے میں وہ سیہ بوتل کبھی ایسی گھٹا اُٹھی ہی نہیں کس قدر ہے بنا ہوا زاہد جیسے اس نے “وہ چیز“ پی ہی نہیں صبح کا جھٹ پٹا تھا، شام نہ تھی وصل...
  10. عین عین

    غزل - مے رہے، مینا رہے، گردش میں پیمانہ رہے - ریاض خیر آبادی

    مئے رہے، مینا رہے، گردش میں‌ پیمانہ رہے میرے ساقی تُو رہے آباد میخانہ رہے حشر بھی تو ہو چکا، رخ سے نہیں‌ ہٹتی نقاب حد بھی آخر کچھ ہے کب تک کوئی دیوانہ رہے رات کو جا بیٹھتے ہیں‌ روز ہم مجنوں‌ کے پاس پہلے اَن بن رہ چکی ہے اب تو یارانہ رہے زندگی کا لطف ہو، اڑتی رہے ہر دم ریاض ہم ہوں شیشے کی...
  11. فرخ منظور

    لَو دل کا داغ دے اٹھے ایسا نہ کیجیے - ریاض خیرآبادی

    لَو دل کا داغ دے اٹھے ایسا نہ کیجیے ہے ڈر کی بات آگ سے کھیلا نہ کیجیے کہتا ہے عکس حُسن کو رسوا نہ کیجیے ہر وقت آپ آئینہ دیکھا نہ کیجیے کہتی ہے مے فروشوں سے میری سفید ریش دے دیں گے دام، اُن سے تقاضا نہ کیجیے اچھی نہیں یہ آپ کی محشر خرامیاں دُنیا کو اِس طرح تہ و بالا نہ کیجیے ہے...
  12. محمد وارث

    غزل - جس دن سے حرام ہو گئی ہے - ریاض خیرآبادی

    ریاض خیرآبادی اردو شاعری میں خمریات کے امام ہیں، انکی ایک غزل نمونۂ کلام کے طور پر: جس دن سے حرام ہو گئی ہے مے، خلد مقام ہو گئی ہے قابو میں ہے ان کے وصل کا دن جب آئے ہیں شام ہو گئی ہے آتے ہی قیامت اس گلی میں پامالِ خرام ہو گئی ہے توبہ سے ہماری بوتل اچھّی جب ٹوٹی ہے، جام ہو گئی ہے مے...
Top