کچھ آگے قتل گاہ میں ہم سے اجل گئی
جانے سے پہلے جان ہماری نکل گئی
صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی
رکھتے نہ کوئی نام جوانی کو اے ریاض
مہمان ایک رات کی آج آئی کل گئی
پروانہ آگ کا تھا بنا شمع موم کی
دیکھا جو بیقرار اسے یہ پگھل گئی
لطفِ شباب جام چھلکنے سے آ...
غزل
(ریاض خیرآبادی)
شراب ناب سے ساقی جو ہم وضو کرتے
حرم کے لوگ طواف خم و سبو کرتے
وہ مل کے دستِ حنائی سے دل لہو کرتے
ہم آرزو تو حسیں خونِ آرزو کرتے
کلیم کو نہ غش آتا نہ طور ہی جلتا
دبی زبان سے اظہارِ آرزو کرتے
شراب پیتے ہی سجدے میں ان کو گرنا تھا
یہ شغل بیٹھ کے مے نوش قبلہ رو کرتے
ہر ایک...
غزل
(ریاض خیر آبادی)
کوئی منہ چوم لے گا اس نہیں پر
شکن رہ جائے گی یوں ہی جبیں پر
اُڑائے پھرتی ہے اُن کو جوانی
قدم پڑتا نہیں ان کا زمیں پر
دھری رہ جائے گی یوں ہی شبِ وصل
نہیں لب پر شکن ان کی جبیں پر
مجھے ہے خون کا دعویٰ مجھے ہے
انہیں پر داورِ محشر انہیں پر
ریاض اچھے مسلماں آپ بھی ہیں
کہ دل...
غزل
کُل مرقعے ہیں ترے چاکِ گریبانوں کے
شکل معشوق کی، انداز ہیں دیوانوں کے
کعبہ و دیر میں ہوتی ہے پرستش کس کی
مے پرستو! یہ کوئی نام ہیں مے خانوں کے
جامِ مے توبہ شکن، توبہ مری جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
پرِ پرواز بنے خود شررِ شمع کبھی
شررِ شمع بنے پر کبھی پروانوں کے
ذکر کیا...
غزل
(ریاض خیرآبادی)
آئینہ دیکھتے ہی وہ دیوانہ ہوگیا
دیکھا کسے کہ شمع سے پروانہ ہوگیا
گل کرکے شمع سوئے تھے ہم نامراد آج
روشن کسی کے آنے سے کاشانہ ہوگیا
منہ چوم لوں یہ کس نے کہا مجھ کو دیکھ کر
دیوانہ تھا ہی اور بھی دیوانہ ہوگیا
توڑی تھی جس سے توبہ کسی نے ہزار بار
افسوس نذر توبہ وہ پیمانہ ہوگیا...
غزل
(ریاض خیر آبادی)
خیالِ شبِ غم سے گھبرا رہے ہیں
ہمیں دن کو تارے نظر آرہے ہیں
دم وعظ کیسے مزے میں ہیں واعظ
بھرے جام کوثر کے چھلکا رہے ہیں
لگا دو ذرا ہاتھ اپنی گلے میں
جنازہ لئے دل کا ہم جارہے ہیں
یہ اُلجھے ہیں رندوں سے کیا شیخ صاحب
بڑھاپے میں کیوں ڈاڑھی رنگوارہے ہیں...
غزل
(مُنشی سید ریاض احمد ، متخلص ریاض - خیر آبادی، شاعری کا وطن لکھنؤ)
میرے سر پہ کبھی چڑھی ہی نہیں
میں نے کچے گھڑے کی پی ہی نہیں
ہائے سبزے میں وہ سیہ بوتل
کبھی ایسی گھٹا اُٹھی ہی نہیں
کس قدر ہے بنا ہوا زاہد
جیسے اس نے “وہ چیز“ پی ہی نہیں
صبح کا جھٹ پٹا تھا، شام نہ تھی
وصل...
لَو دل کا داغ دے اٹھے ایسا نہ کیجیے
ہے ڈر کی بات آگ سے کھیلا نہ کیجیے
کہتا ہے عکس حُسن کو رسوا نہ کیجیے
ہر وقت آپ آئینہ دیکھا نہ کیجیے
کہتی ہے مے فروشوں سے میری سفید ریش
دے دیں گے دام، اُن سے تقاضا نہ کیجیے
اچھی نہیں یہ آپ کی محشر خرامیاں
دُنیا کو اِس طرح تہ و بالا نہ کیجیے
ہے...