میرے افکار نے جس شے سے جلا پائی ہے
عشق کی زندہ دلی حسن کی رعنائی ہے
شاخ گل میں جو نزاکت جو لہک آئی ہے
تیری باہوں کی لچک ہے تیری انگڑائی ہے
پھر ابھرنے لگے نہ خستہ ماضی کے نقوش
لوح دل پر کوئی تصویر ابھر آئی ہے
غم و اندوہ کے اس دور میں کیا عیش و نشاط
شادیانے ہیں خوشی کے نہ وہ شہنائی ہے...