آپ سلطان ہوا کیجے گدا ہم بھی نہیں
اس قدر تو گئے گزرے بخدا ہم بھی نہیں
اب انا کو کرے سجدہ تو محبت ہی کرے
جبہہ سا آپ نہیں ناصیہ سا ہم بھی نہیں
جائیے جائیے مت دیکھیے مڑ کر پیچھے
ایسے شوقینِ جفا خوارِ وفا ہم بھی نہیں
چارۂِ سرکشئِ دل کریں اللہ اللہ
وہ خدا بندہ نواز آپ تو کیا ہم بھی نہیں
دوستی...
دل کے افسانے کو افسانہ سمجھنے والے
خوب سمجھے مجھے دیوانہ سمجھنے والے
دیکھ کر بھی نہ کبھی جان سکے حسن کا راز
عشق کو علم سے بیگانہ سمجھنے والے
آ تجھے ضبط کے اسراف سے آگاہ کروں
آہ کو درد کا پیمانہ سمجھنے والے
شیخ جاگیر سمجھتا ہے خدائی کو بھی
ہم خدا کو بھی کسی کا نہ سمجھنے والے
قیس سے دشت میں...
حسرتوں کے ملال سے نکلیں
کیسے اس کے خیال سے نکلیں
آؤ اس ہجر کو وصال کریں
اور آگے وصال سے نکلیں
عشق میں یہ بہت ضروری ہے
زخم ہی اندمال سے نکلیں
عین ممکن ہے درد کے مارے
زندگی کے وبال سے نکلیں
فکر اتنی ہے ایک لمحے کو
دور تیرے خیال سے نکلیں
عمر راحیلؔ خرچ کر ڈالیں
زندگی تیرے جال سے نکلیں