کبھی اکیلے میں مل کر جھنجوڑ دونگا اُسے
جہاں جہاں سے وہ ٹوٹا ہے جوڑ دونگا اُسے
مجھے ہی چھوڑ گیا یہ کمال ہے اُس کا
ارادہ میں نے کیا تھا کہ چھوڑ دونگا اُسے
پسینہ بانٹتا پھرتا ہے ہر طرف سورج
کبھی جو ہاتھ لگا تو نچوڑ دونگا اُسے
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دُنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ...
غزل
ہاتھ خالی ہیں تِرے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی، تو مِری جان! لُٹاتے جاتے
اب تو ہر ہاتھ کا پتّھر ہَمَیں پہچانتا ہے
عُمر گذری ہے تِرے شہر میں آتے جاتے
رینگنے کی بھی اِجازت نہیں ہم کو، ورنہ !
ہم جِدھر جاتے، نئے پُھول کِھلاتے جاتے
مجھ میں رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں...
مرے خلوص کی گہرائی سے نہیں ملتے
یہ جھوٹے لوگ ہیں سچائی سے نہیں ملتے
وہ سب سے ملتے ہوئے ہم سے ملنے آتا ہے
ہم اس طرح کسی ہرجائی سے نہیں ملتے
پُرانے زخم ہیں کافی ، شمار کرنے کو
سو، اب کِسی بھی شناسائی سے نہیں ملتے
ہیں ساتھ ساتھ مگر فرق ہے مزاجوں کا
مرے قدم مری پرچھائی سے نہیں ملتے
محبتوں کا سبق...
اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے
چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے
ترقی کر گئے بیماریوں کے سوداگر
یہ سب مریض ہیں جو اب دوائیں کرنے لگے
لہولہان پڑا تھا زمیں پہ اک سورج
پرندے اپنے پروں سے ہوائیں کرنے لگے
زمیں پہ آ گئے آنکھوں سے ٹوٹ کر آنسو
بری خبر ہے فرشتے خطائیں کرنے لگے
جھلس رہے ہیں...
غزل
(راحت اندوری)
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
ایک دیوانہ مسافر ہے میری آنکھوں میں
وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے، چل پڑتا ہے
اپنی تعبیر کے چکر میں میرا جاگتا خواب
روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام...
غزل
(راحت اندوری)
لوگ ہر موڑ پہ رُک رُک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں
میں نہ جگنوہوں، دیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں
روشنی والے مرے نام سے جلتے کیوں ہیں
نیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سے
خواب آ آ کے مری چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں
موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیئے
اور...
غزل
(ڈاکٹر راحت اندوری )
اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں
میں چاہتا تھا چراغوں کو ماہتاب کروں
بتوںسےمجھ کو اجازت اگر کبھی مل جائے
تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں
میں کروٹوں کے نئے زاویے لکھوں شب بھر
یہ عشق ہے تو کہاں زندگی عذاب کروں
ہے میرے چاروں طرف بھیڑ گونگے...
غزل
سمندر پار ہوتی جا رہی ہے
دعا ، پتوار ہوتی جا رہی ہے
دریچے اب کھلے ملنے لگے ہیں
فضا ہموار ہوتی جا رہی ہے
کئی دن سے مرے اندر کی مسجد
خدا بیزار ہوتی جا رہی ہے
مسائل، جنگ، خوشبو، رنگ، موسم
غزل اخبار ہوتی جا رہی ہے
بہت کانٹوں بھری دنیا ہے لیکن
گلے کا ہار ہوتی جا رہی ہے
کٹی...
غزل
زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں
میرے کیسہ میں مری وفائیں رہ گئیں
نوجواں بیٹوں کو شہروں کے تماشے لے اڑے
گاؤں کی جھولی میں کچھ مجبور مائیں رہ گئیں
بُجھ گیا وحشی کبوتر کی ہوس کا گرم خون
نرم بستر پر تڑپتی فاختائیں رہ گئیں
ایک اک کر کے ہوئے رخصت مرے کنبے کے لوگ
گھر کے سناٹے...