بچھڑتے وقت تو کچھ اس میں غم گساری تھی
وہ آنکھ پھر تو ہر اک کیفیت سے عاری تھی
نہ جانے آج ہواؤں کی زد پہ کون آیا
نہ جانے آج کی شب کس دیے کی باری تھی
ذرا سی دیر کو چمکی تو تھی غنیم کی تیغ
سواد شہر میں پھر روشنی ہماری تھی
سفر سے لوٹے تو جیسے یقیں نہیں آتا
کہ ساری عمر اسی شہر میں گزاری تھی
حریف...
آوارگانِ شوق سبھی گھر کے ہو گئے
اک ہم ہی ہیں کہ کوچۂ دلبر کے ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ تجھ سے بچھڑنا پڑا ہمیں
پھر یوں لگا کہ شہر سمندر کے ہو گئے
کچھ دائرے تغیرِ دنیا کے ساتھ ساتھ
ایسے کھنچے کہ ایک ہی محور کے ہو گئے
اس شہر کی ہوا میں ہے ایسا بھی اک فسوں
جس جس کو چھو گئی سبھی پتھر کے ہو گئے...
غزل
اے خدا صبر دے مجھ کو نہ شکیبائی دے
زخم وہ دے جو مری روح کو گہرائی دے
خلقتِ شہر یونہی خو ش ہے تو پھر یوں ہی سہی
ان کو پتّھر دے ، مجھے ظرفِ پذیرائی دے
جو نگاہوں میں ہے کچھ اس سے سوا بھی دیکھوں
یا اِن آنکھوں کو بجھا یا انہیں بینائی دے
تہمتِ عشق تو اس شہر میں کیا دے گا کوئی
کوئی اتنا بھی...
غزل
ایک ہی آگ کے شعلوں میں جلائے ہوئے لوگ
روز مل جاتے ہیں دو چار ستائے ہوئے لوگ
وہی میں ہوں، وہی آسودہ خرامی میری
اور ہر سمت وہی دام بچھائے ہوئے لوگ
خواب کیسے کہ اب آنکھیں ہی سلامت رہ جائیں
وہ فضا ہے کہ رہیں خود کو بچائے ہوئے لوگ
تیرے محرم تو نہیں اے نگہِ ناز مگر
ہم کو پہچان کہ ہیں تیرے...
یہ کون ڈوب گیا اور اُبھرگیا مجھ میں
یہ کون سایے کی صورت گذر گیا مجھ میں
یہ کس کے سوگ میں شوریدہِ حال پھرتا ہوں
وہ کون شخص تھا ایسا کہ مر گیا مجھ میں
عجب ہواِ بہاراں نے چار ہ سازی کی
وہ زخم جس کو نہ بھرنا تھا بھر گیا مجھ میں
وہ آدمی کہ جو پتھر تھا جی رہا ہے ابھی
جو آئینہ تھا وہ...
تم نغمہِ ماہ ہو ، انجم ہو ، تم سوزِ تمنا کیا جانو
تم دردِ محبت کیا سمجھو ، تم دل کا تڑپنا کیا جانو
سو بار اگر تم روٹھ گئے ، ہم تم کو منا ہی لیتے تھے
ایک بار اگر ہم روٹھ گئے ، تم ہم کو منانا کیا جانو
تخریبِ محبت آسان ہے ، تعمیرِ محبت مشکل ہے
تم آگ لگانا سیکھ گئے ، تم آگ بجھانا کیا...
کیسے جیئیں قصیدہ گو، حرف گروں کے درمیاں
کوئی تو سر کشیدہ ہو، اتنے سروں کے درمیاں
ایک طرف میں جاں بہ لب ، تارِ نَفس شکستنی
بحث چھڑی ہوئی اُدھر، چارہ گروں کے درمیاں
ہاتھ لئے ہیں ہاتھ میں، پھر بھی نظر ہے گھات میں
ہمسفروں کی خیر ہو، ہمسفروں کے درمیاں
اُسکا لکھا کچھ اور تھا، میرا کہا کچھ اور...
کوئی بجھتا ہوا منظر ، نہیں دیکھا جاتا
اب کسی آنکھ کو پتھر ، نہیں دیکھا جاتا
وہ ہمارا نہ سہی ، اور قبیلے کا سہی
ہم سے پسپا کوئی لشکر ، نہیں دیکھا جاتا
کیا یہ سچ ہے ، کہ تیرے آئینہ خانوں میں مجھے
میرے قامت کے برابر ، نہیں دیکھا جاتا
وہ نہ لوٹا ، تو اسے لوٹ کےآنا بھی نہ تھا...
عزیزانِ محترم،
آداب و تسلیمات،
جنابِ رضی اختر شوق کا کلام آپ دوستوں
کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔
امید ہے پسند فرمائینگے ۔
یہ چاند کہتا تھا کوئی ستارہ زاد ہے یہ
کہا گلاب نے میرے حسب نسب کا ہے
کسی چراغِ سرِ رہِ گذار کی مانند
کوئی بھی اسکا نہ تھا اور یار سب کا تھا
جو وقت گزرے تو سینے پہ بوجھ...