اب وقت کا فرمان بہ اندازِ دگر ہے
حالات کا عنوان بہ اندازِ دگر ہے
اے کشتیِ تدبیر کے آرام نشینو!
تقدیر کا فرمان بہ اندازِ دگر ہے
از بسکہ ہیں تخریب کے اطوار نرالے
تعمیر کا سامان بہ اندازِ دگر ہے
اے غم کے اندھیرے میں سسکتے ہوئے راہی
اب صبح کا امکان بہ اندازِ دگر ہے
اربابِ محبت نہیں فریاد کے خوگر...
کیا مذاقِ آسماں ہے ہم دل افگاروں کے ساتھ
ذہن پھولوں سے بھی نازک، زندگی خاروں کے ساتھ
درد کم ہونے نہیں دیتے کہ ہم سے پھر نہ جائیں
کیا محبت ہے مسیحاؤں کو بیماروں کے ساتھ
جن کو سِم سِم کی خبر تھی ان پر دروازے کھلے
ہم الجھتے ہی رہے سنگین دیواروں کے ساتھ
اپنا اندازِ محبت بے نیازِ قرب و بعد
جسم...
پھونک کر گھر اپنا ذکرِ برقِ ناہنجار کیا
خود کشی کر کے بیانِ تیغِ جوہر دار کیا
شمعیں خود گل کر کے ظلمت کی مذمت کس لیے
قتل کر کے دوستوں کو شکوۂ اغیار کیا
کن سرابوں میں ہیں اہلِ کارواں کھوئے ہوئے
پاؤں اپنے توڑ کر پھر خواہشِ رفتار کیا
سر تو اپنے تم نے پھوڑے اے گروہِ خود سراں!
کچھ سمجھ میں آئی بھی...
موج در موج ہے دریا تیرا
تشنہ لب پھرتا ہے پیاسا تیرا
تہہ بہ تہہ دھند کے پردے ہیں یہاں
کیا نظر آئے سراپا تیرا
خامشی میری ہے، حیرت میری
آئنے تیرے ہیں، جلوا تیرا
جانتے سب ہیں پہ کہتے ہیں ”نہیں“
کیسا تنہا ہوا رسوا تیرا
پھول کھلتے ہیں تو یاد آتا ہے
مسکراتا ہوا چہرا تیرا
چاند چڑھتا ہے تو ہم دیکھتے...
غزل
(کرم حیدری)
عمر ہے جنگل، ہم ہیں شکار اور ظالم وقت شکاری ہے
دن تو جوں توں کٹ ہی گیا ہے، رات کی منزل بھاری ہے
صدیوں سے ہر روز گرائے کیسے کیسے شاہ سوار
دنیا پھر ویسی کی ویسی اَلھڑ مست سواری ہے
اپنا آپ گنوا کر ہم نے پایا تو اتنا ہی پایا
برسوں کی محنت کے مقابل لمحوں کی غفلت بھاری ہے
بانہوں میں...
غزل
(کرم حیدری)
بقدرِ خواہشِ دل ہو سکی نہ بات اس کی
کہ میری سوچ سے بھی خوب تر تھی ذات اس کی
تمام جذبوں کی پاکیزگی کا حاصل تھی
اٹھی جو میری طرف چشمِ التفات اس کی
وہ بیکراں تھا مگر یوں سما گیا مجھ میں
کہ جیسے دل ہی تو میرا تھا کائنات اس کی
جمالِ رخ نے ہی مجھ کو نہ کر لیا مسحور
تھی گفتگو میں بھی...
غزل
کرم حیدری
زمانہ گزرا ہے دل میں یہ آرزو کرتے
کہ تیرے اشکِ ندامت سے ہم وضو کرتے
لہو سفید ہوا تھا سب اہلِ دنیا کا
ہم اپنے خون سے کس کس کو سرخرو کرتے
یہی تو ایک تمنا رہی دوانوں کی
کبھی کبھی تیرے کوچے میں ہاؤ ہو کرتے
اب اِس کے بعد خدا جانے حال کیا ہوگا
کہ ہم تو جاں سے گئے حفظِ...
دولت، حکومت، علم
دولت نہ حکومت نہ امارت ہے بڑی چیز
دنیا میں مگر دانش و حکمت ہے بڑی چیز
جس دل میں ہو دولت کا جنوں محوِ تگ و تاز
دب جاتی ہے اُس میں حق و انصاف کی آواز
دولت کے پجاری تو ہیں قارون کے فرزند
مرتے نہیں قارون کے ترکے پہ ہنر مند
ہے شیوہء فرعون حکومت پہ تفاخر
زیبا نہیںمومن...
اُداس لمحوں میں آخر وہ مل گیا تھا مجھے
مری ہی آنکھوں کی چلمن سے جھانکا تھا مجھے
وہ قُربتوں کی تمازت سے جل رہا تھا کچھ اور
وہ آنسوؤں کی جھڑی سے بُجھا رہا تھا مجھے
لپٹ کے مجھ سے بڑی سادگی کے لہجے میں
نہ جانے کس کے فسانے سنا رہا تھا مجھے
اُسے یہ غم کہ تھا یادوں کے کرب میںتنہا
مجھے یہ...
ہم کہ اوروں کی مسیحائی کیا کرتے تھے
سرجھکائے ہوئے بیتھے رہے بیماروں میں
غم کے ماروں میں ، دل افگاروں میں
جن تمناوں کو پالا تھا بڑی چاہ کے ساتھ
روتی پھرتی رہیں سرکھول کے بازاروں میں
دشمنوں اور ستم گاروں میں
ان تمناوں کا پھر کون نگہباں ہوگا
گھرگئے خود جو ہمیں خوف کی دیواروں میں
دب گئے درد کے...