شاعری !
شفیق خلش
شاعری ساز ہے ، آواز ہے، تصویریں ہیں
جس کی ہر حرف میں رقصاں کئی تعبیریں ہیں
ہیں مناظر لِئے احساس کو چُھوتی سطریں
ایک اِک شعر کی کیا کیا نہیں تفسیریں ہیں
یہ دِکھائے کبھی ہر رات سہانا سپنا
اور کبھی خواب کی اُلٹی لِکھی تعبیریں ہیں
تیغ زن مدِّ مُقابل ہیں عقائِد، تو کہیں
بھائی...
غزلِ
شفیق خلش
چُنے مجھے ہی ہمیشہ جہان بھر سے آگ
نہ چھوڑے جان بھی میری اگر مگر سے آگ
گو پُر ہے عِشق و محبّت کی اِک اثر سے آگ
لگے نہ سِینے میں اُس کے جہاں کی ڈر سے آگ
اب اور لوگوں کا کیا ذکر جب حقیقت میں
لگی نصِیب جَلے کو خود اپنے گھر سے آگ
نجانے کیا شبِ فرقت میں گُل کِھلاتی ہے
لگی یہ...
غزلِ
شام تک صُبْح کی نظروں سے اُتر جاتے ہیں
اِتنے سمجھوتوں پہ جِیتے ہیں کہ مرجاتے ہیں
ہم تو بے نام اِرادوں کے مُسافر ٹھہرے
کچھ پتا ہو تو بتائیں کہ کِدھر جاتے ہیں
گھر کی گِرتی ہُوئی دِیوار ہے ہم سے اچھّی
راستہ چلتے ہُوئے لوگ ٹھہر جاتے ہیں
اِک جُدائی کا وہ لمحہ، کہ جو مرتا ہی نہیں...