رسا چغتائی

  1. فرخ منظور

    کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجے۔ رسا چغتائی

    کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجے آسماں دیکھتے رہا کیجے چار دیواریٔ عناصر میں کودتے پھاندتے رہا کیجے اس تحیر کے کارخانے میں انگلیاں کاٹتے رہا کیجے کھڑکیاں بے سبب نہیں ہوتیں تاکتے جھانکتے رہا کیجے راستے خواب بھی دکھاتے ہیں نیند میں جاگتے رہا کیجے فصل ایسی نہیں جوانی کی دیکھتے بھالتے رہا کیجے آئنے...
  2. فرخ منظور

    سَر اُٹھایا تو سَر رہے گا کیا؟ ۔ رسا چغتائی

    سَر اُٹھایا تو سَر رہے گا کیا؟ خوف یہ عُمر بھر رہے گا کیا؟ اُس نے زنجیر کر کے رکّھا ہے ہم سے وہ بے خبر رہے گا کیا؟ پاؤں رہتے نہیں زمیں پہ تِرے ہاتھ دستار پر رہے گا کیا؟ وہ جو اِک خواب ہم نے دیکھا تھا خواب وہ عُمر بھر رہے گا کیا؟ مر رہے ہیں فراق میں تیرے تَو ہمیں مار کر رہے گا کیا؟ عشق خانہ...
  3. نیرنگ خیال

    ترے نزدیک آکر سوچتا ہوں (رسا چغتائی)

    ترے نزدیک آکر سوچتا ہوں میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں خدا جانے مری گھٹڑی میں کیا ہے نہ جانے کیوں اٹھائے پھر رہا ہوں یہ کوئی اور ہے اے عکس دریا میں اپنے عکس کو پہچانتا ہوں نہ آدم ہے نہ آدم زاد کوئی کن آوازوں سے سر ٹکرا رہا ہوں...
  4. محمداحمد

    غزل ۔ بات بھی تول رہا ہے پیارے ۔ رسا چغتائی

    غزل بات بھی تول رہا ہے پیارے یا یونہی بول رہا ہے پیارے شہر میں ڈھونڈ پڑی ہے تیری تو یہاں ڈول رہا ہے پیارے جب سے کنگال ہوا ہے یہ دل سیپیاں رول رہا ہے پیارے وہ کوئی اور ہو نہیں سکتا مجھ میں جو بول رہا ہے پیارے اپنے لہجے میں انا کا اپنی زہر کیوں گھول رہا ہے پیارے شل ہوئے پاؤں تو اب...
  5. محمداحمد

    غزل ۔ خاک اُڑتی ہے اس جہان میں کیا ۔ رسا چغتائی

    غزل خاک اُڑتی ہے اس جہان میں کیا پھول کھلتے ہیں آسمان میں کیا عشق تیرے خیال میں کیا ہے زندگی ہے ترے گُمان میں کیا میں جو حیرت زدہ سا رہتا ہوں بات آتی ہے تیرے دھیان میں کیا نیند آرام کر رہی ہے ابھی تیری پلکوں کے سائبان میں کیا کیا ہوئے وہ شکست خوردہ لوگ آگئے سب تری امان میں کیا تجھ...
  6. محمداحمد

    غزل ۔ دیدنی اک جہان ہے، پر کیا ۔ رسا چغتائی

    غزل دیدنی اک جہان ہے، پر کیا اُس کے در سے اُٹھائیے سر کیا اک معمّا ہے گنبدِ بے در اک کہانی ہے ساتواں در کیا شہر کا شہر سیلِ آب میں ہے رہ میں مجھ غریب کا گھر کیا ایک مجذوب کی ولایت میں پتھروں سے بچائیے سر کیا شام آتے ہی اژدھے کی طرح سرسراتی ہے بادِ صر صر کیا میرے اُٹھنے سے جاگ اُٹھے...
  7. محمداحمد

    غزل ۔ دل نے اپنی زباں کا پاس کیا ۔ رسا چغتائی

    غزل دل نے اپنی زباں کا پاس کیا آنکھ نے جانے کیا قیاس کیا کیا کہا بادِ صبح گاہی نے کیا چراغوں نے التماس کیا کچھ عجب طور زندگانی کی گھر سے نکلے نہ گھر کا پاس کیا عشق جی جان سے کیا ہم نے اور بے خوف و بے ہراس کیا رات آئی ادھر ستاروں نے شبنمی پیرہن لباس کیا سایۂ گل تو میں نہیں جس نے گُل...
  8. محمداحمد

    غزل ۔ رات درکار تھا سنبھالا مجھے ۔ رسا چغتائی

    غزل رات درکار تھا سنبھالا مجھے دیکھتا ہی رہا پیالہ مجھے جانے کس شام کا ستارہ ہوں جانے کس آنکھ نے اُجالا مجھے میرے دل سے اُتار دے نہ کہیں ایک دن یہ ترا حوالہ مجھے کس طرح میں زمیں کا رزق ہوا کس طرح اس زمیں نے پالا مجھے اور کتنی ہے زندگی میری اور کرنا ہے کیا ازالہ مجھے اس سے پہلے نظر...
  9. محمداحمد

    غزل ۔ سامنے جی سنبھال کر رکھنا ۔ رساؔ چغتائی

    غزل سامنے جی سنبھال کر رکھنا پھر وہی اپنا حال کر رکھنا آ گئے ہو تو اِس خرابے میں اب قدم دیکھ بھال کر رکھنا شام ہی سے برس رہی ہے رات رنگ اپنے سنبھال کر رکھنا عشق کارِ پیمبرانہ ہے جس کو چھُونا مثال کر رکھنا کشت کرنا محبتیں اور پھر خود اُسے پائمال کر رکھنا روز جانا اُداس گلیوں میں روز...
  10. محمداحمد

    غزل ۔ خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے ۔ رساؔ چغتائی

    غزل خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے نیند اُس کی ہے جو اُڑا لے جائے زُلف اُس کی ہے جو اُسے چھولے بات اُس کی ہے جو بنا لے جائے تیغ اُس کی ہے شاخِ گُل اُس کی جو اُسے کھینچتا ہوا لے جائے یوں تو اُس پاس کیا نہیں پھر بھی ایک درویش کی دعا لے جائے زخم ہو تو کوئی دہائی دے تیر ہو تو کوئی اُٹھا...
  11. محمداحمد

    غزل ۔ رشتۂ جسم و جاں بھی ہوتا ہے ۔ رساؔ چغتائی

    غزل رشتۂ جسم و جاں بھی ہوتا ہے ٹوٹنے کا گماں بھی ہوتا ہے اس توہم کے کارخانے میں کارِ شیشہ گراں بھی ہوتا ہے ہم سے عزلت نشیں بھی ہوتے ہیں عرصۂ لامکاں بھی ہوتا ہے ہم بھی ہوتے ہیں اُس کی محفل میں رقصِ سیّارگاں بھی ہوتا ہے بادِ صحرائے جاں بھی ہوتی ہے نغمۂ سارباں بھی ہوتا ہے جوئے آبِ رواں...
  12. محمداحمد

    غزل ۔ پاس اپنے اک جان ہے سائیں ۔ رساؔ چغتائی

    غزل پاس اپنے اک جان ہے سائیں باقی یہ دیوان ہے سائیں جس کا کوئی مول نہ گاہک کیسی یہ دوکان ہے سائیں آنسو اور پلک تک آئے آنسو اگنی بان ہے سائیں جوگی سے اور جگ کی باتیں جوگی کا اپمان ہے سائیں میں جھوٹا تو دنیا جھوٹی میرا یہ ایمان ہے سائیں جیسا ہوں جس حال میں ہوں میں اللہ کا احسان ہے...
  13. محمداحمد

    غزل ۔ تیرے آنے کا انتظار رہا ۔ رساؔ چغتائی

    غزل تیرے آنے کا انتظار رہا عمر بھر موسمِ بہار رہا پا بہ زنجیر، زلفِ یار رہی دل اسیرِ خیالِ یار رہا ساتھ اپنے غموں کی دھوپ رہی ساتھ اک سروِ سایہ دار رہا میں پریشان حال آشفتہ صورتِ رنگِ روزگار رہا آئینہ آئینہ رہا پھر بھی لاکھ در پردۂ غبار رہا کب ہوائیں تہہِ کمند آئیں کب نگاہوں پہ...
  14. محمداحمد

    رسا چغتائی کے منتخب اشعار

    میں نہ تھا اور وہ گھر آیا تھا ہائے کیا خواب نظر آیا تھا ***** زندگی کا سفر کٹا تنہا اک کہانی سی رہگزر نے کہی ***** جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو میں اُن آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں ***** تیرے آنے کا انتظار رہا عمر بھر موسمِ بہار رہا تجھ سے ملنے کو بے قرار تھا دل تجھ سے مل کر بھی بے...
  15. محمداحمد

    غزل ۔ کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہوئے ۔ رسا چغتائی

    غزل کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہوئے کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے نیند کب آنکھوں میں آئی، کب ہوا ایسی چلی سائباں کیسے اُڑے، ویراں نگر کیسے ہوئے کیا کہیں وہ زُلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھلی ہم طرف دار ہوائے راہگُزر کیسے ہوئے حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر یہ حادثے اک ذرا سی زندگی...
  16. محمداحمد

    غزل ۔ کل یوں ہی تیرا تذکرہ نکلا ۔ رسا چغتائی

    غزل کل یوں ہی تیرا تذکرہ نکلا پھر جو یادوں کا سلسلہ نکلا لوگ کب کب کے آشنا نکلے وقت کتنا گریز پا نکلا عشق میں بھی سیاستیں نکلیں قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا رات بھی آج بیکراں نکلی چاند بھی آج غمزدہ نکلا سُنتے آئے تھے قصہء مجنوں اب جو دیکھا تو واقعہ نکلا ہم نے مانا وہ بے وفا ہی سہی کیا...
  17. فرحت کیانی

    کچھ خانماں برباد تو سائے میں کھڑے ہیں۔۔۔رسا چغتائی

    کچھ خانماں برباد تو سائے میں کھڑے ہیں اس دور کے انساں سے تو یہ پیڑ بھلے ہیں چیونٹی کی طرح رینگتے لمحوں کو نہ دیکھو اے ہمسفرو! رات ہے اور کوس کڑے ہیں پتھر ہیں تو رستےسے ہٹا کیوں نہیں دیتے رہرو ہیں تو کیوں صورتِ دیوار کھڑے ہیں میں، ہیچ سخن، ہیچ مداں، ہیچ عبارت کہتا یوں تو کہتے ہیں کہ...
Top